انسانی حقوق کی علمبردار دو عالمی تنظیموں نے افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی گئی سخت پابندیوں کو صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم قرار دیا ہے جو کہ 'انسانیت کے خلاف جرم' ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ( آئی سی جے) نے ایک نئی رپورٹ میں کہا کہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن اور خواتین کی"قید، جبری گمشدگی، تشدد اور دیگر ناروا سلوک" بین الاقوامی فوجداری قوانین کے تحت صنفی ظلم و ستم ثابت ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کا عنوان، "خواتین کے خلاف طالبان کی جنگ: افغانستان میں صنفی ظلم و ستم کا انسانیت کے خلاف جرم" ہے جس میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے آئی سی سی کے مخفف سے پہچان رکھنے والے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے قوانین کا حوالہ دیا ہے جو صنف کی بنیاد پر ہونے والے ظلم و ستم کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں اس وقت اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جب امریکی اور نیٹو فوجیں دو دہائیوں کی جنگ کے بعد ملک سے انخلاء کے آخری مراحل میں تھیں۔
اعتدال پسند حکمرانی کے ابتدائی وعدوں کے برعکس افغان طالبان نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں نافذ کرنا شروع کر دیں۔ خواتین کو عوامی مقامات اور زیادہ تر ملازمتوں سے روک دیا گیا، اور چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بھی لگا دی گئی۔
یہ اقدامات طالبان کے 1990 کی دہائی کے آخری سالوں میں افغانستان میں طالبان کی سابقہ حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی طرح ہیں جب انہوں نے "اسلامی قانون یا شریعت" کی اپنی سخت تشریح نافذ کی تھی۔
ان سخت احکامات کے جواب میں عالمی برادری نے پہلے سے ہی تنہا اور دنیا سے الگ تھلگ کیے گئے طالبان گروپ کے خلاف غصے اور مذمت کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے طالبان کی انتظامیہ کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے اب تک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق رپورٹ میں آئی سی جے کے سیکرٹری جنرل سینٹیاگو اے کینٹن نے کہا کہ طالبان کے اقدامات اس قدر شدید، منظم اور بڑے پیمانے پر ہیں کہ انہیں صنفی ظلم و ستم کے انسانیت سوز جرم" کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تحقیقات میں اس کو بھی بطور جرم شامل کیا جائے اور قانونی کارروائی کی جائے۔
انہوں نے عالمی برادری سے "عالمی دائرہ اختیار استعمال کرنے" اور طالبان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ بھی کیا۔
رپورٹ میں طالبان پر الزام لگا یا گیاہے کہ وہ پرامن احتجاج میں حصہ لینے والی خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر رہے ہیں اور انہیں حراست میں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ طالبان نے انہیں دوبارہ احتجاج نہ کرنے کے لیے "اعترافات" یا "معاہدوں" پر دستخط کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔
ایمنسٹی کی سیکرٹری جنرل، اگنیس کالمارڈ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ "خواتین کے خلاف جنگ" ہے، جو "بین الاقوامی جرائم" کے مترادف ہے اور یہ منظم، وسیع اور ایک منصوبےکے تحت کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ "جنسی جبر اور ظلم و ستم کے اس نظام کو ختم کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو طالبان ارکان سے شادی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں زبردستی اس طرح کی شادیوں کے لیے مجبور کرنے کی کوششوں کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جن عورتوں نے ایسی شادیوں سے انکار کیا انہیں اغوا کیا گیا اور ڈرایا دھمکا یا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔
( اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد اے پی سے لیا گیا ہے)