واشنگٹن —
امریکہ میں آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن جماعت کے امیدوار مٹ رومنی نے اپنے ڈیموکریٹ حریف صدر براک اوباما کی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پیر کو امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست ورجینیا کے ایک فوجی ادارے میں خطاب کرتے ہوئے مٹ رومنی نے صدر اوباما کو امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فاصلے پیدا کرنے کا موردِ الزام ٹہرایا ۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما کی اس پالیسی کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے امید معدوم ہو رہی ہے اور دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن، خصوصاً ایران، مضبوط ہورہے ہیں۔
ری پبلکن صدارتی امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ایران کے رہنمائوں رپر واضح کردیں گے کہ امریکہ اور اس کے دوست اور اتحادی انہیں کسی صورت جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
رومنی کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انہیں ایران پر نئی پابندیاں بھی عائد کرنا پڑیں تو وہ ہرگز نہیں ہچکچائیں گے اور خلیجِ فارس میں امریکہ کے طیارہ بردار جہاز کی مستقل موجودگی کو یقینی بنائیں گے۔
صدر اوباما اپنی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی آپریشن میں ہلاکت کو اپنی خارجہ پالیسی کی اہم کامیابیاں گنواتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے خاتمے کے فیصلوں کو بھی خارجہ محاذ پر اپنے اہم کارنامے قرار دیتے ہیں۔
لیکن اپنی تقریر میں مٹ رومنی نے عراق سے امریکی افواج کے - بقول ان کے – "عجلت میں انخلا" کے فیصلے پہ یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ عراق میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات، 'القاعدہ' کی مزاحمتی کاروائیوں، کمزور جمہوریت اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث وہاں حاصل کی جانے والی امریکی فوجی کامیابیوں کے اثرات زائل ہورہے ہیں۔
انہوں نے افغانستان سے 2014ء تک امریکی فوجی انخلا کے صدر اوباما کےفیصلے کو بھی "سیاسی انخلا" قرار دیا تاہم اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا کہ آیا وہ اپنے انتخاب کے بعد اس ٹائم ٹیبل میں کوئی رد وبدل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔
رومنی کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی مسلح تصادم کا خطرہ صدر اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے وقت سے اب کہیں زیادہ ہے جس سے محفوظ رہنے کے لیے خطے سے متعلق پالیسیوں کا رخ بدلنا ہوگا۔
رومنی نے صدر اوباما کی شام سے متعلق پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
پیر کو امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست ورجینیا کے ایک فوجی ادارے میں خطاب کرتے ہوئے مٹ رومنی نے صدر اوباما کو امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فاصلے پیدا کرنے کا موردِ الزام ٹہرایا ۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما کی اس پالیسی کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے امید معدوم ہو رہی ہے اور دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن، خصوصاً ایران، مضبوط ہورہے ہیں۔
ری پبلکن صدارتی امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ایران کے رہنمائوں رپر واضح کردیں گے کہ امریکہ اور اس کے دوست اور اتحادی انہیں کسی صورت جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
رومنی کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انہیں ایران پر نئی پابندیاں بھی عائد کرنا پڑیں تو وہ ہرگز نہیں ہچکچائیں گے اور خلیجِ فارس میں امریکہ کے طیارہ بردار جہاز کی مستقل موجودگی کو یقینی بنائیں گے۔
صدر اوباما اپنی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی آپریشن میں ہلاکت کو اپنی خارجہ پالیسی کی اہم کامیابیاں گنواتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے خاتمے کے فیصلوں کو بھی خارجہ محاذ پر اپنے اہم کارنامے قرار دیتے ہیں۔
لیکن اپنی تقریر میں مٹ رومنی نے عراق سے امریکی افواج کے - بقول ان کے – "عجلت میں انخلا" کے فیصلے پہ یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ عراق میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات، 'القاعدہ' کی مزاحمتی کاروائیوں، کمزور جمہوریت اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث وہاں حاصل کی جانے والی امریکی فوجی کامیابیوں کے اثرات زائل ہورہے ہیں۔
انہوں نے افغانستان سے 2014ء تک امریکی فوجی انخلا کے صدر اوباما کےفیصلے کو بھی "سیاسی انخلا" قرار دیا تاہم اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا کہ آیا وہ اپنے انتخاب کے بعد اس ٹائم ٹیبل میں کوئی رد وبدل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔
رومنی کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی مسلح تصادم کا خطرہ صدر اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے وقت سے اب کہیں زیادہ ہے جس سے محفوظ رہنے کے لیے خطے سے متعلق پالیسیوں کا رخ بدلنا ہوگا۔
رومنی نے صدر اوباما کی شام سے متعلق پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔