بھارت میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کا مسلمانوں سے متعلق ایک بیان پھر بھارت میں تنازع کا سبب بن رہا ہے۔ آر ایس ایس رہنما نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے، لیکن اُنہیں بالادستی کی ذہنیت ترک کرنا ہو گی۔
منگل کو آر ایس ایس کے انگریزی اور ہندی ترجمانوں ’آرگنائزر‘ اور ’پانچ جنیہ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن انہیں اپنی بالادستی کی ذہنیت ترک کرنا ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ انہیں اس خیال سے باہر آنا ہوگا کہ ہم نے حکومت کی تھی، ہم پھر حکومت کریں گے‘ حزب اختلاف کی جماعتوں اور بعض دانش وروں کی جانب سے آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح وہ ہندو عوام کو اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کے لیے اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موہن بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں اور دنیا بھر میں ہندوؤں میں جو ایک نئی قسم کی جارحیت پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو معاشرہ ایک ہزار برس سے حالتِ جنگ میں ہے اور اب وہ آر ایس ایس کی مدد سے بیدار ہو گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمان اگر اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔ وہ اگر اپنے آباؤ اجداد کا مذہب (ہندو مذہب) اختیار کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہندوستان کو ’ہندو استھان‘ ہی رہنا چاہیے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ نے ایک بیان میں کہا کہ آر ایس ایس کے سربراہ کے ایسے اشتعال انگیز بیانات کی مذمت کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر اس اشتعال انگیزی کو ناکام بنانا چاہیے۔
ان کے مطابق موہن بھاگوت نے ایک بار پھر آئینی حدود کی پامالی کی ہے۔ ان کا یہ بیان کہ ہندوؤں کی جنگ بیرون ملک کے کسی دشمن سے نہیں بلکہ اندر کے دشمنوں سے ہے، ایک بار پھر آر ایس ایس کے تقسیم کرنے والے ایجنڈے کو بے نقاب کرتا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولٹ بیورو نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بیان بھارتی آئین، تمام شہریوں کے مساوی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو کھلا چیلنج ہے۔ بھاگوت نے مسلم اقلیت کو دھمکی دی اور ملکی باشندوں کے ایک طبقے کے خلاف مذہب کی بنیاد پر تشدد کی کال دی ہے۔
سی پی ایم کے مطابق ان کا یہ بیان آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار اور نظریہ ساز گولوالکر کی مبینہ نفرت انگیز تحریروں کی تجدید ہے جن میں کہا گیا ہے کہ مسلمان بھارت میں اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب کہ وہ خود کو ہندوؤ ں کے ماتحت رہنا قبول کر لیں۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک ٹوئٹ میں سوال کیا کہ موہن بھاگوت کون ہوتے ہیں مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کی اجازت دینے والے، یا یہ کہنے والے کہ ہمارے عقیدے کو مانو یا ہمارے شہریوں پر شرائط لادنے والے۔ ان کو ہندوؤں کا نمائندہ کس نے منتخب کیا۔
سماجوادی پارٹی کے ارکان پارلیمان کپل سبل اور ڈاکٹر شفیق الرحمن برق، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا اور کانگریس کے سابق رکن پارلیمان راشد علوی نے بھی بھاگوت کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ماضی میں موہن بھاگوت کے مصالحانہ بیانات کی حمایت کرنے والے معروف دانش ور، ماہر اسلامیات اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق صدر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے بھی ان کے بیان کی مخالفت کی۔
اُنہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک ایسی جماعت کے سربراہ کو جو ملک کی حکمراں جماعت کو فکری و نظریاتی غذا پہنچاتی ہے، ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا کیوں کہ اس ملک کا ہندو حالتِ جنگ میں نہیں ہے اور اگر وہ حالتِ جنگ میں ہے تو پھر حکومت کیا کر رہی ہے۔
اُنہوں نے موہن بھاگوت کے اس جملے پر کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، کہا کہ میں بلا وجہ خوف کی نفسیات کا شکار نہیں ہوں۔ تاہم ان کے خیال میں بھاگوت کے بیان کا جواب دینے کی ضرورت ہے اور میں نے جواب دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر ان کا ایک مضمون جمعرات کو کئی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ زمانہ نہ مجادلے کا ہے، نہ مناظرے کا ہے بلکہ مکالمے کا ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت سوال مسلمان کا نہیں بلکہ ملک کو بچانے کا ہے۔
اُنہوں نے حکومت اور حکمراں جماعت سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سو سال کے اندر جو ذہن سازی کی گئی ہے وہ جلد ختم نہیں ہوگی۔
سینئر تجزیہ کار ستیش کے سنگھ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے چھ جنوری کو تری پورہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یکم جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا جائے گا۔
اُن کے بقول اب موہن بھاگوت نے ہندوؤں کے بیدار ہونے والا بیان دیا ہے۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اگلے پارلیمانی انتخابات کے لیے جارح ہندوتوا کو ایجنڈا بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ان کے مطابق بھاگوت پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے بین السطور میں یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ یہ ہندووں کا ملک ہے، یہاں انہی کی بالادستی رہے گی۔
دیگر تجزیہ کار اور مبصر بھی بھاگوت کے بیان کو اگلے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں دیا گیا بیان تصور کرتے ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ بی جے پی پارلیمانی انتخاب ہندوتو اکے ایجنڈے پر ہی لڑے گی۔
لیکن پروفیسر اختر الواسع موہن بھاگوت کے بیان کو اگلے پارلیمانی انتخابات سے جوڑ کر دیکھنے سے بچتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی اس میں کافی وقت ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مثبت انداز میں سوچنا چاہیے۔
ان کے مطابق ہمیں فخر ہے کہ بھارتی مسلمان کبھی اس ملک پر حاکم تھے۔ لیکن وہ برطانوی حکومت میں محکوم ہو گئے۔ 15 اگست 1947 سے وہ نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔ اس حیثیت پر ہمیں کل بھی ناز تھا، آج بھی ہے اور کل کے لیے بھی ہم اس کے تمنائی ہیں۔
دریں اثنا بی جے پی رہنما اور سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ باہمی اشتراک کا جذبہ ملک کو ترقی کے راستے پر لے جائے گا نہ کہ بالادستی کی جنگ۔
اُنہوں نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام مسلمانوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ مسلم ووٹوں کے ٹھیکیداروں کے ساتھ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان اس ملک کی اجتماعی ترقی میں شراکت دار بنیں۔
بعض اخباروں نے موہن بھاگوت کے بیان پر اداریے شائع کیے ہیں اور ان کے اس بیان کو سابقہ بیانات سے مختلف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے پہیے کو الٹا گھمانا شروع کر دیا ہے۔