پاکستان میں حالیہ زلزلے نے بڑے پیمانے پر جو تباہی پہنچائی ہے، اُس میں نہ صرف سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں، بلکہ اس قدرتی آفت نے اپنے پیچھے بہت سی دلخراش داستانیں بھی چھوڑی ہیں۔ لوگ نہ صرف اپنے گھربار سے محروم ہوگئے بلکہ اُنھیں اپنے پیاروں سے اپنے سامنے بچھڑنے کا غم بھی برداشت کرنا پڑا اور بہت سوں کی تو ،گویا ، دنیا ہی اُجڑ گئی۔
جوں جوں متاثرہ علاقوں تک رسائی مل رہی ہے، ان کی بہت سی دل گرفتہ کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔
ایسی ہی ایک غمناک کہانی خیبر پختونخواہ کی عنبرین مغل کی ہے۔۔۔
اُن کی والدہ اِس زلزلے میں وفات پاچکی ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی ماں زلزلے کے دوران بچوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے پناہ کی تلاش میں گھر سے باہر نکلیں۔ لیکن شومئیِ قسمت، کہ اِسی دوران، دیوار گرنے سے اُن کے سر پر شدید چوٹ لگنے سے اُن کی ہلاکت ہوگئی۔
عنبرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف وہ اپنی والدہ کو، جِن کا کوئی متبادل نہیں، کھو چکی ہیں؛ تو دوسری جانب ’میرا گھر زلزلے سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ ساری دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور فرش نیچے کی طرف دھنس گئے ہیں‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے گھر میں خواتین کے علاوہ چھوٹی عمر کے بچے موجود ہیں اور گھر کسی بھی وقت گِر سکتا ہے۔
اُنھوں نے اردو سروس کے پروگرام راؤنڈٹیبل میں اپنی داستان بیان کی تو اُن کی آواز جذبات سے مغلوب ہوگئی اور اُنھوں نے روتے روئے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اُن کے گھر کی مرمت کا بندوبست کرے، تاکہ گھر میں موجود افراد بلا کسی خوف کے رہ سکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک طرف ماں کے بچھڑنے کا غم اور دوسری جانب سائبان سے محروم ہوجانا، روز جینے اور روز مرنے کے برابر ہے۔
زلزلے میں خیبرپختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں سوات کے ضلع شانگلہ میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے اور جہاں گھروں کی عمارتوں کے نیچے دب جانے سے درجنوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
شیر بن زادہ نے جن کا تعلق شانگلہ سے ہے، وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ شانگلہ کے علاقے میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جہاں لوگ گھروں سے باہر، بقول اُن کے، شدید سردی میں سڑکوں پر وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔
شیر بن زادہ نے بتایا کہ شانگلہ میں موجود لوگوں کو پیسوں کی نہیں بلکہ سر چھپانے کے لیے فوری سہولتوں کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شانگلہ کے آس پاس شہری علاقوں میں امدادی کارروائیاں کسی حد تک نظر آرہی ہیں۔ تاہم، شانگلہ کے دیہی پہاڑی علاقوں میں جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے اور لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں موجود ہیں وہاں، اُن کے مطابق، ابھی تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچی ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سردار اسماعیل کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جِن کا گھر تباہ ہوچکا ہے اور وہ گھر کے صحن میں گزشتہ دو دنوں سے وقت گزار رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خاندان کی بے سرو سامانی دیکھی نہیں جاتی۔
زلزلے سے بُری طرح متاثر ایک اور فرد محمد انور نے پشتو زبان میں اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور اس وقت مٹی کا ایک ڈھیر نظر آتا ہے۔
بچے اور بیوی ہمسائے کے گھر میں پناہ لیئے ہوئے ہیں۔ محمد انور کا کہنا ہے کہ وہ پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اور گھر کو دوبارہ تعمیر کرنا اُن کے لیے نا ممکن ہے۔
اُنھوں نے صوبائی حکومت کے اہل کاروں سے اپیل کی کہ وہ آئیں اور خود اُن کے گھر کا جائزہ لیں، جو اِس وقت مٹی کے ایک ڈھیر کی شکل میں موجود ہے، اور اُن کی مدد کریں۔
پشاور کے قصہ خوانی علاقے سے تعلق رکھنے والے وقاص کی کہانی بھی باقی متاثرین سے کچھ کم دردناک نہیں ۔
وقاص اسپتال میں چپراسی ہیں اور اِس وقت گھر گِرنے کی وجہ سے کرائے کے ایک گھر میں بیوی بچوں سمیت رہ رہے ہیں۔
اُن کا سب کچھ لُٹ چکا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم امداد کے آسرے پر زندہ ہیں۔
عنایت الرحمٰن کاتعلق شانگلہ سے ہے، جو زلزلے میں اپنی شریک حیات کھوچکے ہیں اور اس وقت اپنے کو بچوں سمیت امدادی ٹیم کے کارکنوں کے انتظار میں اپنے تباہ شدہ گھر کے پاس اپنے ہی بنائے ہوئے کیمپ میں انتظار کر رہے ہیں۔ بیوی کے بچھڑ جانے کا غم اور انتظار کی طویل کیفیت اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ وہ کہتے ہیں بیوی کے ہلاک ہوجانے سے وہ اس مصیبت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا ہوگئے ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں ’ریسکیو آپریشن‘ کے ترجمان، بلال فیضی نے پروگرام راؤنڈٹیبل میں زلزلے سےمتاثرہ افراد کی کہانیاں سننے کے بعد، اُنھیں یقین دہانی کرائی کہ زلزلے سے متاثرہ گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے اُنھیں رقم مہیا کی جائے گی۔
بلال فیضی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ خراب موسم اور پہاڑی علاقوں کی وجہ سے اب بھی کئی علاقوں تک اُن کی رسائی نہیں ہوسکتی ۔ تاہم، انتھک کوششیں جاری ہیں۔
سرکاری امدادی ادارے اور پاکستانی افواج رلیف کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں اور متاثرین کو مصیبت کی اس گھڑی میں راحت پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ نے امدادی کاموں کا جائزہ لینے اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کیا ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے ایک امدادی پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔