روس اس ہفتے ماسکو میں ایک کانفرنس منعقد کر رہا ہے جس میں خطے کے کلیدی ممالک افغانستان میں جاری تنازع کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
اس کانفرنس میں امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو سمیت کوئی مغربی طاقت موجود نہیں ہو گی۔
ماسکو میں منعقد ہونے والا یہ اجلاس روس کی طرف سے افغانستان میں مزید فعال کردار ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
1979 میں افغانستان پر حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ماسکو کی طرف سے ایسی کوشش کی جا رہی ہے،تاہم روس کا کردار ابتدا ہی سے متنازع رہا ہے۔
افغانستان کے بارے میں گزشتہ کانفرنس ماسکو نے دسمبر 2016 میں منعقد کی تھی اور اُس میں صرف چین اور پاکستان شامل تھے۔
افغان حکومت اس بارے میں زیادہ خوش نہیں تھی، اب اس کانفرنس میں افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور ایران بھی شامل ہیں لیکن امریکہ اور نیٹو اس میں شریک نہیں ہیں۔
بیشتر لوگ اس صورت حال کو روس اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کی سنیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کی ایک حالیہ سماعت میں کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین نے کہا کہ روس امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے طالبان کو تقویت دے رہا ہے۔
اگرچہ بعض مقامی تجزیہ کار اس کانفرنس کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی آمنہ خان کہتی ہیں ’’اس لائحہ عمل میں خطے کے تمام کلیدی ممالک شامل ہیں جن کے افغانستان میں بڑے مفادات ہیں۔ دہشت گردی ایک عالمی عمل ہے لیکن میرے خیال میں علاقائی ممالک کو مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
روس مشرقی افغانستان میں عسکریت پسند گروپ داعش کی موجودگی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، ماسکو نہیں چاہتا کہ اس کا اثر روس کی سرحد پر واقع کاکیشیائی علاقو ں پر مرتب ہو۔
لیکن اس کانفرنس کے ذریعے کسی ٹھوس نتیجے کی توقعات کم ہی ہیں۔
کینیڈا اور فرانس کے لیے افغانستان کے سابق سفیر عمر صمد نے اسکائپ کے ذریعے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’یہ حقیقت کہ اس وقت تین مزید ملکوں کو اس کانفرنس میں شامل کیا گیا ہے، یہ اس بات کی غماز ہے کہ صورت حال ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جہاں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے بیانیے پر غور کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مؤثر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس کانفرنس سے کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور اعتماد کے فقدان کی وجہ سے متعدد کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ عمل کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کا انحصار روس اور چین کی صلاحیت پر ہے کہ وہ دونوں ملکوں کو اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے کس حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔