روسی ٹائیکون میخائل خودرکووسکی نے جو آرکٹک سرکل کے نزدیک جیل میں بند ہیں، چند ہفتے پہلے پیشگوئی کی تھی کہ سوال یہ نہیں ہے کہ روس کے انتخابات کون جیتے گا، بلکہ یہ ہے کہ ولادیمر پوٹن کی حکومت کی ساکھ کو دھاندلیوں سے کس حد تک نقصان پہنچے گا ؟ ہفتے کے روز، یعنی روس کے پارلیمانی انتخابات کے صرف ایک ہفتے بعد، شاید ہمیں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
ماسکو میں ایک احتجاجی مظاہرے کے لیے 300 افراد کو اجازت دی گئی ہے، لیکن 50,000 لوگوں نے اس میں شرکت کے عہد کیے ہیں ۔ ماسکو میں جمہوریت کی حمایت میں پوٹن کے عشرے کے سب سے بڑے مظاہرے کا سامنا کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ ماسکو کے علاوہ، روس کے مزید 88 شہروں، اور 43 بیرونی شہروں میں مظاہرے ہوں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بالٹک میں کیلننگراڈ سے لے کر بحرالکاہل میں ولادیوستوک تک ، روسی بے نیازی کے اس رویے کو خیر باد کہہ رہے ہیں جس کی بدولت مسٹر پوٹن، 2000 سے اب تک، کسی مخالفت کے بغیر روس پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوگا؟
ماسکو میں سینٹر فار پولیٹیکل ٹیکنالوجیز کے چیئر مین بورس ماکارینکو کا خیال ہے کہ روس میں عوامی مظاہروں سے پوٹن کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ روس میں یوکرین، جارجیا یا یوگوسلاویہ کی طرح کا انقلاب آنے کا امکان نہیں۔
لیکن روس بدل گیا ہے۔ مسٹر پوٹن کی شخصیت کا سحر ٹوٹ چلا ہے ۔ پہلا دھچکہ اس وقت لگا جب مارشل آرٹس کے ایک مقابلے میں ، مجمع نے مسٹر پوٹن پر، جو جوڈو کے ماہر ہیں، آوازے کسے۔ کریملن نے بعد میں کہا کہ ہجوم در اصل ایک امریکی کا مضحکہ اڑا رہا تھا جو مقابلے میں ہار گیا تھا ۔ اسکے بعد کریملن نے کہا کہ ہجوم میں جو لوگ آوازے کس رہے تھے وہ بیئر کے نشے میں دھت تھے۔
لیکن کریملن پر نظر رکھنے والوں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اس واقعے کے بعد مسٹر پوٹن نظر نہیں آئے ہیں۔ منشیات کے خلاف دو جلسوں میں انہیں تقریر کرنا تھی لیکن وہ وہاں بھی نہیں پہنچے۔
تین مہینے کے مختصر عرصے کے بعد، مسٹر پوٹن کو صدارت کا انتخاب لڑنا ہے اور انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔وہ مخالفین کو کچل سکتےہیں، وہ اصلاحات کی پیشکش کر سکتےہیں، یا وہ سرکاری پیسہ لوگوں میں بانٹ سکتے ہیں ۔
Otkritie investment house کے تجزیہ کار ولادیمر تیخومیرووف کا خیال ہے کہ مسٹر پوٹن یہ تینوں طریقے استعمال کریں گے ۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں وہ روس کا روایتی طریقہ استعمال کریں گے یعنی اصلاحات اور پولیس اسٹیٹ کے ملے جلے طریقے۔‘‘
کریملن کو پولیس پر اور ٹیلیویژن اسٹیشنوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ دس روز بعد، روس میں سب کی توجہ کرسمس پر اور نئے سال کی تقریبات پر ہو گی۔ چھٹیوں کا یہ سیزن جنوری کے وسط تک چلتا ہے ۔
ایک مہینہ پہلے ، کنگز کالج، لندن کے پروفیسر اناتول لیون ایک گروپ کے ساتھ وزیرِ اعظم پوٹن کی دعوت پر ڈنر پر گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر پوٹن بڑے مشاق سیاستداں ہیں۔ ان کی پیشگوئی یہ ہےکہ وہ بہت جلد اپنی پوزیشن مضبوط کر لیں گے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی ایسا انقلاب آئے گا جس سے ان کی حکومت ختم ہو جائے۔
منگل کے روز مسٹر پوٹن نے بر سرِ اقتدار پارٹی کے لیڈروں سے خطاب کیا جو اس بات پر ناراض ہیں کہ حزبِ اختلاف ان کی پارٹی کو چوروں اور دھوکے بازوں کی پارٹی کہتی ہے۔ مسٹر پوٹن نے انہیں یاد دلایا کہ سوویت دور میں لوگ حکام کو چور اور رشوت خور کہتے تھے ۔ تجزیہ کارماکارینکو کہتےہیں کہ مارچ میں مسٹر پوٹن کو چھ سال کی مدت کے لیے صدارت کا انتخاب لڑنا ہے، اور انہیں روس کے لوگوں کو مستقبل کا کوئی تصور پیش کرنا چاہیئے۔
’’مسئلہ یہ ہے کہ اس بحران کے دوران مستقبل کے بارے میں روس کے لوگوں کی توقعات ختم ہو گئیں۔ لوگ اچھی توقعات رکھنا چاہتےہیں، اور حکمراں پارٹی نے اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی ۔ مسٹر پوٹن کے پاس ابھی موقع ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کا اعلان کریں۔
لیکن جمعرات کے روز مسٹر پوٹن نے وہی پرانی سوویت کہانی دہرائی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ روس میں سڑکوں پر احتجاج امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کے اشارے پر شروع ہوئے تھے۔ اس ہفتے پولیس نے ماسکو میں اور سینٹ پیٹرز برگ میں، 1,600 احتجاجیوں کو گرفتار کر لیا ۔ احتجاجوں کا حوالہ دیتے ہوئے جو روس میں ٹیلیویژن دیکھنے والوں کو نہیں دکھائے گئے ہیں، مسٹر پوٹن نے روسیوں کو یاد دلایا کہ انہیں استحکام کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ دو سابق روسی جمہوریتوں ، یوکرین اور کرغزستان میں انقلاب کے نتیجے میں کتنی افرا تفری پھیلی تھی ۔لیکن پروفیسر لیون کہتے ہیں کہ روسی استحکام کے نام پر اپنی جمہوری آزادیاں قربان کرنا نہیں چاہتے۔
’’قدامت پسند روسی، یا پوٹن کے حامی روسی بھی، خود کو ازبکستان کی طرح دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔ ان کے لیے کچھ حد تک جمہوریت، نفسیاتی طور پر اہم ہے ۔‘‘
ہفتے کے روز کے مظاہروں سے آنے والے وقت کا اندازہ ہو گا کہ نئے سال میں روس میں حالات کیاہوں گے۔