'یوکرین میں روسی جنگ خوراک کا عالمی بحران پیدا کر رہی ہے'
یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ دنیا کو خوراک کے بحران کے دہانے کی طرف دھکیل رہی ہے کیوں کہ جنگ یوکرین کی بڑے پیمانے پر زراعت پر مشتمل معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔
عالمی بینک نے کہا ہے کہ یوکرین کی معیشت اس سال سکڑ کر نصف رہ جائے گی۔
جمعہ کو یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار کا کہنا تھا کہ روس کی یوکرین میں زرعی اراضی پر بمباری اور اناج کی ترسیل کرنے والے بحری جہازوں کو روکنے کے لیے بندرگاہوں کی بندش ملک کو معاشی نقصان پہنچائے گی۔
جوزپ بوریل نے لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ روسی حملے قلت پیدا کر رہے ہیں اور دنیا میں بھوک کو ہوا دے رہے ہیں۔
روس کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے: یوکرینی صدر
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ روس یوکرین میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
انہوں نے ایک ویڈیو خطاب میں مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ روس کو ایسے ہتھیاروں کے استعمال سے روکنے کے لیے ماسکو کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کریں۔
زیلنسکی کے خدشات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق محصور جنوبی ساحلی شہر ماریوپول میں پہلے ہی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹرس نے کہا ہے کہ برطانیہ ان رپورٹس سے آگاہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''ہم تفصیلات کی تصدیق کے لیے شراکت داروں کے ساتھ فوری طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس طرح کے ہتھیاروں کا کسی بھی طرح کا استعمال اس تنازع میں ایک خطرناک اضافہ ہوگا، اور ہم (روسی صدر ولادیمیر) پوٹن اور ان کی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔''
امریکی وزارت دفاع کے پریس سکریٹری جان کربی نے کہا کہ امریکہ اس وقت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکتا، لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ گہری تشویش کی بات ہے۔
کربی نے کہا کہ یہ رپورٹس ان خدشات کی عکاس ہیں جن کے مطابق روس یوکرین میں کیمیائی ایجنٹوں کے ساتھ آنسو گیس سمیت مختلف قسم کے فسادات پر قابو پانے کے ایجنٹوں کو استعمال کر سکتا ہے۔
بائیڈن، مودی ویڈیو لنک رابطہ؛ یوکرین کی لڑائی اور قریبی مشاورت جاری رکھنے پر بات چیت
صدر جوبائیڈن نے پیر کے روز ویڈیو لنک کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کی، جس کے دوران دونوں ملکوں کے مشترکہ اقدار پر زور دیا گیا۔ یہ بات چیت ایسے میں ہوئی ہے جب امریکہ نے بھارت اور دیگر ملکوں سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں۔
گفتگو کے آغاز میں بائیڈن نے دونوں ملکوں کے مابین دفاعی شراکت داری کی نشاندہی کی۔
انھوں نے کہا کہ دونوں ملک ''روسی لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کے اثرات سے نبردآزما ہونے کے لیے قریبی مشاورت جاری رکھیں گے''۔
امریکی صدر نے کہا کہ ''ہماری شراکت داری ہمارے عوام کے مابین جاری قریبی تعلق، خاندانی مراسم، دوستی اور مشترکہ اقدار کی مظہر ہے''۔
یوکرین کے خلاف لڑائی میں بھارت کے غیر جانبدار مؤقف پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اسے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے ''صورت حال کو مکمل زاویے سے دیکھا ہے، نہ کہ یکطرفہ طور پر''۔
مودی نے یوکرین کی صورت حال کو ''انتہائی پریشان کن'' قرار دیتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی کہ لڑائی کے نتیجے میں ایک بھارتی طالب علم کی جان چلی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی ہے، جن سے انھوں نے امن کی اپیل کی ہے۔
بقول ان کے، بھارت نے بوچا کے شہر میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور اس کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم، بھارت نے یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں میں حصہ نہیں لیا۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری میں بھارت نے ووٹ نہیں ڈالا، جس میں 47 ارکان کی انسانی حقوق کونسل سے روس کی رکنیت، اس الزام پر کہ روسی فوج نے یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا، منسوخ کر دی گئی تھی، جب کہ امریکہ اور یوکرین نے جنگی جرائم کے الزام پر روس کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
قرارداد کے حق میں 93 اور مخالفت میں 24 ووٹ ڈالے گئے، جب کہ 58 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
روس نے یوکرین میں نیا کمانڈر تعینات کردیا
یوکرین میں پیش قدمی کرنے میں ناکامی کے بعد روس نے مشرقی یوکرین پر حملہ جاری رکھنے کے لیے ایک نئے کمانڈر کو تعینات کیا ہے، جس کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس کمانڈر کا شام اور دیگر جنگوں میں شہری آبادی کی ہلاکتوں سے متعلق بربریت کا بہت خراب ریکارڈ ہے۔
امریکی حکام نے اس نئے روسی کمانڈر کی شناخت، جنرل الیگزینڈر ڈورنیکوف کے طور پر کی ہے، جو روس کے تجربہ کار ترین عہد دار بتائے جاتے ہیں۔
جنرل الیگزینڈر ڈورنیکوف کو 2015ء میں شام بھیجا گیا تھا تاکہ شامی صدر بشار الاسد کی ناکام ہوتی ہوئی افواج کو سہارا دیا جا سکے۔
انھوں نے وہاں سال بھر روسی فوج کی قیادت کی۔ شام میں کردار ادا کرنے پر انھیں روسی وفاق کا ہیرو قرار دیا گیا تھا۔
اس وقت تک وہ روس کے جنوبی خطے کے کمانڈر رہے ہیں۔
لیکن شام میں ان کی کمان میں روس کی فوج پر الزام لگایا جاتا رہا تھا کہ انھوں نے ان باغیوں کے خلاف کارروائی کی جو الاسد کو نکال باہر کرنے کی جستجو کر رہے تھے، جس کے لیے انھوں نے سویلین مضافات اور اسپتالوں پر بم حملے جاری رکھے۔
'سیرئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے سربراہ، رمی عبدالرحمٰن، جو ادارہ برطانیہ سے لڑائی کی نگرانی کرتا ہے، نے 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا تھا کہ ''شام میں شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار صرف بشار الاسد کو قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ روسی جنرل کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ بطور ملٹری کارروائیوں کے کمانڈر ان کا نام شہری آبادیوں پر حملوں کے احکامات جاری کرنے والے کے طور پر سامنے آتا ہے''۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے 'سی این این' کے پروگرام 'اسٹیٹ آف دی یونین' کو بتایا کہ ڈورنیکوف کے ہوتے ہوئے یوکرین میں اُنہی نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔
تاہم، سلیوان نے کہا کہ ''ببیشک آپ کسی بھی جنرل کو تعینات کر لیں، آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ یوکرین میں روس کو حکمتِ عملی کی نوعیت کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے''، کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرنے اور صدر ولودیمیر زیلنسکی کو ہٹانے کے 24 فروری کے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکا''۔