روس مئی کے یوم فتح سے پہلے یوکرین میں اہم کامیابی چاہتا ہے، برطانوی انٹیلی جنس
برطانوی وزارت دفاع کے تازہ ترین انٹیلی جنس اپ ڈیٹ میں کہا گیا ہے کہ روس ممکنہ طور پر مئی کے یوم فتح کی چھٹی سے پہلے یو کرین میں "اہم کامیابیاں" چاہتا ہے۔
روس کا یہ ممکنہ ارادہ اس بات پر اثر انداز ہو سکتا ہے کہ وہ کتنی جلدی اور زبردستی اس تاریخ تک آپریشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ روس میں مے وکٹری ڈے دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔
اپ ڈیٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ روسی افواج مشرقی یوکرین میں کراماٹورسک کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں اور روس یوکرین کے فضائی دفاع کو تباہ کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ، کینیڈا، برطانیہ کا جی20 اجلاس میں روس کی شرکت پر واک آوٹ
دنیا کی 20 بری معیشتوں کے گروپ جی 20 کے واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے اجلاس میں روس کو شرکت کی اجازت دینے پر امریکہ، کینیڈا اوربرطانیہ کے سینئر رہنما احتجاجاًواک آؤٹ کرگئے۔
امریکہ اور جی20 کے دیگر ممبران نےاجلاس کی صدارت کرنے والے ملک انڈونیشیا سے مطالبہ کیا تھا کہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے پر اجلاس میں شرکت سے روکے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کو اجلاس میں شرکت کی اجازت یوکرین میں جنگ سے نمٹنے کے معاملے پر جی20 گروپ کے اندر تقسیم کو نمایاں کرتی ہے۔
اگرچہ یوکرین اس گروپ کا رکن نہیں ہے،اس کے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ سیشن کے آغاز میں یوکرینی وزیر خارجہ ڈی مٹرو کولیبا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یوکرین امن مذاکرات کے حصے کے طور پر اپنا علاقہ روس کو نہیں دے گا۔ کولیبا اور یوکرینی وزیر خزانہ سرحی مارچینکو دونوں واک آؤٹ میں شامل ہوئے۔
اپنے تبصرے میں، روس کے وزیر خزانہ انٹن سلوانوف نے رکن ممالک کے درمیان بات چیت کو سیاسی رنگ دینے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عالمی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جی20 گروپ میں شامل بڑے ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور کینیڈا نے یوکرین میں روسی اقدامات کی پر زور مذمت کی ہے اور ماسکو پر سخت اقتصادی پابندیوں کے نفاذ میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
لیکن دوسری طرف گروپ میں شامل بہت سے دوسرے ممالک نے ایسا نہیں کیا۔ ان ممالک میں چین، انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
بائیڈن کی یوکرین پر تازہ جائزے کے لیے اعلیٰ فوجی رہنماؤں سے ملاقات
ایسے وقت میں جب روس نے یوکرین کے ساحلی شہر ماریوپول پر نئے حملے شروع کیے ہیں امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی حملے کا تازہ ترین جائزہ لینے کے لیے اپنی فوجی قیادت سے ملاقات کی۔
ملاقات سے قبل بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنے اعلیٰ فوجی افسروں سے کہا کہ وہ ان سے ان کے جائزوں کو سننا چاہتے ہیں کہ میدان میں ہماری افواج کیا دیکھ رہی ہیں۔
صدر نے کہا کہ دنیا میں اسٹرٹیجک ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے منصوبے اور قوت کا انداز بھی اتنا ہی متحرک ہونا چاہیے۔
ملاقات میں سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور تقریباً دو درجن دیگر عسکری رہنما اور قومی سلامتی کے مشیر شامل تھے۔
دریں اثنا امریکہ نے بدھ کو مزید درجنوں افراد اور اداروں پر تازہ پابندیاں عائد کیں جن پر یوکرین پر حملے کے لیے ماسکو پر عائد جاری مالی جرمانے سے بچنے کا الزام ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ محکمۂ خزانہ نے ٹرانس کپیٹل نامی ایک اہم روسی تجارتی بینک پر پابندیاں عائد کی ہیں کیوں کہ اس بینک نے بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر بینکوں کو خدمات کی پیشکش کی ہے۔ اس کے علاوہ چالیس سے زیادہ افراد اور اداروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جو روسی اولیگارک کی سربراہی میں روسی پابندیوں سے بچنے کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
پریس سیکریٹری نے بتایا کہ واشنگٹن نے روس کی ورچوئل کرنسی مائننگ انڈسٹری میں کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں اور روس اور بیلاروس کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جواب میں 600 سے زیادہ افراد پر ویزا پابندیاں لگائی ہیں۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل رپورٹس آئی تھیں کہ بائیڈن انتظامیہ یوکرین کے لیے ایک اور بڑے فوجی امدادی پیکج کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کا حجم پچھلے ہفتے اعلان کردہ 800 ملین ڈالر کے پیکج کے برابر ہوگا اور اس میں مزید توپ خانے اور دسیوں ہزار راؤنڈز شامل ہونے کی توقع ہے، جو ممکنہ طور پر یوکرین کے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں لڑائی کے لیے اہم ہوں گے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں بائیڈن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ وہ یوکرین کو مزید توپ خانے بھیجیں گے۔
روس پر مغربی ملکوں کی عائد کردہ پابندیوں کے اثرات آذربائیجان پر بھی مرتب ہونے لگے
ایسے میں جب روس کے خلاف مغربی ملکوں کی جانب سے عائد پابندیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آذربائیجان میں مبصرین کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ روس کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات والے اس ملک کو ممکنہ اثرات جھیلنا پڑیں گے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ روس کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے نتیجے میں آذربائیجان کے تجارتی تعلقات اور روس کے ساتھ رقوم کی منتقلی کے معاملات میں مشکل نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے، چونکہ درآمد کے شعبے میں آذربائیجان روس کا کلیدی شراکت دار ہے، جہاں آذربائیجان کے 25 لاکھ تارکین وطن محنت کش موجود ہیں۔
معاشی امور کے ماہر، ناطق جعفری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روس پر عائد تعزیرات کے آذربائیجان کے بینکاری کےشعبے کے لیے مسائل پیدا ہوں گے جب کہ بین الاقوامی منی ٹرانسفرز کے معاملے میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی، کیونکہ آذربائیجان کا روس کے ساتھ علیحدہ سے رقوم کی ترسیل کاکوئی نظام موجود نہیں ہے۔