ترکی کا یوکرین جنگ پر مضبوط مؤقف امریکہ کے ساتھ بہترتعلقات کا محرک بن گیا
یوکرین پر حملےکے بعد روس کے خلاف ترکی کا مضبوط مؤقف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا محرک بن رہا ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے یوکرین پر روسی حملے کی واضح الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی انقرہ نے ماسکو کی تنقید کا سامنے کرتے ہوئے ترک ساختہ ڈرون فروخت کیے ہیں جو روسی افواج کو مہلک نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ترکی نے زیادہ تر روسی جنگی جہازوں کے لیے بحیرہ اسود تک رسائی بھی بند کردی۔
واشنگٹن نے انقرہ کے مذکورہ تمام اقدامات کی تعریف کی ہے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی کونسل کے محقق اور سینئر فیلو، اسلی آیدنتاسباس نے کہا کہ ترکی کے مؤقف نے امریکہ اور ترکی کے تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔
یوکرین کے تنازع کے آغاز کے بعد سے سینیئر امریکی سفارت کاروں نے ترکی کے کئی دورے کیے ہیں، جس میں تعلقات کو بڑھانے کے لیے گزشتہ ماہ ایک فریم ورک کا اعلان کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ نیٹو کے اتحادیوں امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات اس سے قبل صدر ایردوان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے سخت کشیدہ ہو گئے تھے۔
روس نے نائب صدر کاملہ ہیرس سمیت 29 امریکی اہلکاروں پر سفر کی پابندی عائد کردی
روسی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن دو درجن سے زائد امریکی شہریوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جن میں نائب صدر کاملا ہیرس بھی شامل ہیں، جنھیں روس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
روسی وزارتِ خارجہ نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ یہ اقدام بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے روس پرعائد کی گئی ان پابندیوں کے جواب میں اٹھایا گیا ہے جن میں ماسکو کے عہدیداروں اور ان کے خاندانوں کو تشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سائنسدان اور کاروباری اور ثقافتی شخصیات بھی ان میں شامل ہیں۔
جن 29 شہریوں کے روس کے سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف رونلڈ کلین، نائب وزیرِ دفاع کیتھلین ہولینڈ ہکس، محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس اور نائب صدر کاملہ ہیرس کے شوہر ڈگ ایم ہاف بھی شامل ہیں۔
روسی حکومت نے امریکہ کی بعض ممتاز کاروباری شخصیات پر بھی پابندی عائد کی ہے جن میں فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ، بنک آف امیریکہ کے سی ای او برائن تھامس موئنی ہن، لنکڈ ان کے سی ای او رائن روزلینسکی اوردفاع سے متعلق کئی بڑی کمپنیوں کے سربراہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیا کی نمایاں شخصیات جن پر روسی پابندیاں عائد ہوں گی ان میں اے بی سی نیوز کے اینکر جارج سٹیفناپولس، واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ڈیوڈ اگنیشئیس اور سی این این کی سینئیر تجزیہ کار بائیانا گولڈ رائیگا بھی شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے خود پر روسی پابندیاں عائد ہونے کو ایک اعزاز قرار دیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا،"کریملن کے اشتعال کا ہدف بننا کسی اعزاز سے کم نہیں۔"
انہوں نے مزید کہا،" خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس کوئی روبل (روسی کرنسی) نہیں ہے۔ اگر ہوتے تو اب ان کی کوئی قدر باقی نہ رہتی۔"
اس سے پہلے روس نے مارچ کے مہینے میں بعض امریکی عہدیداروں کے روس میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔ ان میں امریکی صدر جو بائیڈن، ان کا بیٹا ہنٹر بائیڈن اور وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شامل تھیں۔
بائیڈن کا یوکرین کے لیے 80 کروڑ ڈالر کی اضافی فوجی امداد کا اعلان
امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی حملے کے خلاف یوکرین کے دفاع کے لیے 80 کروڑ ڈالر کی اضافی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے ۔ تاہم، صدر نے کہا ہے کہ کانگریس سے اس اضافی امداد کی منظوری کی ضرورت ہو گی۔
نئی فوجی امدد میں بھاری آرٹلری کے لیے گولہ بارود کے 144,000 راؤنڈ اور مشرقی یوکرین میں ڈونباس کے علاقے میں بڑھتی ہوئی لڑائی میں یوکرینی فورسز کی امدد کے لیے ڈرونز طیارے شامل ہیں۔
یہ رقم اس 2.6 ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ ہے جس کی منظوری صدر بائیڈن پہلے ہی دے چکے ہیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کانگریس نے یوکرین کے لیے 13.6 ارب ڈالر کی جس امداد کی منظوری دی تھی وہ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
صدر نے کہا کہ یہ امداد براہ راست،" آزادی کی اولین صفوں" کو مہیا کی جائے گی۔
صدر بائیڈن نے مزید کہا، ’’پوٹن انتظار میں ہیں کہ یوکرین کے معاملے میں ہماری دلچسپی کم ہو جائے۔‘‘
انہوں نے کہا روسی صدر کو یقین ہے کہ، ’’مغرب کے اتحاد میں دراڑ آجائے گی مگر ہم انہیں غلط ثابت کر دیں گے۔‘‘
صدر بائیڈن نے یہ بھی اعلان کیا کہ روس سے تعلق رکھنے والے تمام بحری جہازوں کے امریکی بندرگاہوں میں داخلے پر پابندی ہو گی۔
اس سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹی بلنکن نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ امریکہ یوکرین کے لیے فوری طور پر اسی کروڑ ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے اپنے بیان میں کہا کہ جب سے روس نے یوکرین کے خلاف سوچی سمجھی، بلا اشتعال ،بلا جواز اور ظالمانہ جنگ کا آغاز کیا ہے، یوکرین کے شہروں اور اس کے اہم زیریں ڈھانچے پر روسی فورسز کی نہ ختم ہونے والی بمباری نے انسانی زندگی کا عشروں میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہوا بحران پیدا کر دیا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے کہا کہ اس المناک اور تباہ کن جنگ کا انتخاب مکمل طورپر روس نے کیا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی، یوکرین کے عوام کے اپنے ملک کے دفاع اور جمہوریت کی بقا کے مقصد میں یک جہتی کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
صدر پوٹن کا ماریوپول میں یوکرینی فوجیوں کے آخری ٹھکانےپر حملہ نہ کرنے کا حکم
روس کے صدر ولادی میرپوٹن نے جمعرات کے روز اپنی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ یوکرین کے شہر ماریوپول کی اسٹیل مل پر حملہ نہ کریں جہاں باقی ماندہ یوکرینی فوجی چھپے ہوئے ہیں۔
پوٹن نے ایک اجلاس میں، جسے ٹیلی وژن پر دکھایا گیا، اپنے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو سے کہا کہ روسی فورسز اسٹیل مل کا اس طرح محاصرہ کریں کہ وہاں سے ایک مکھی تک بھی باہر نہ نکل سکے۔اور وہ ایک ایسی منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں جس سے روسی فوجیوں کے لیے غیر ضروری خطرات پیدا نہ ہوں۔
شوئیگو نے پوٹن کو بتایا کہ ماریوپول کے ایزوسٹال پلانٹ میں تقریباً دو ہزار یوکرینی فوجی موجود ہیں جب کہ باقی ماندہ شہر پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
یوکرین کی نائب وزیر اعظم ارینا ویریشچک نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پلانٹ سے شہریوں اور زخمی فوجیوں کو نکالنے کی اجازت دے۔
ویریشچک نے جمعرات کو ایک آن لائن پوسٹ میں کہا، "وہاں تقریباً ایک ہزار شہری اور 500 زخمی فوجی موجود ہیں۔ جنہیں وہاں سے نکالنے کی ضرورت ہے۔"
ویریشچک نے یہ بھی کہا کہ بدھ کو چار بسوں کے ذریعے ماریوپول سے شہریوں کو نکالا گیاتھا۔
خیال ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ یوکرینی باشندے ماریوپول میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے سے قبل اس شہر میں چار لاکھ لوگ رہ رہے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو پاناما میں ایک سفارتی کانفرنس میں کہا کہ "وہاں کے حالات واقعی خوفناک ہیں۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ماریوپول کے رہائشیوں کو وہاں سے نکلنے کی اجازت دی جائے۔