جرمنی کا روس پر پابندیاں برقرار رکھنے کا عندیہ
جرمنی نے کہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں روس پر عائد پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک ماسکو کیف کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کر لیتا۔
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یہ یوکرین کو طے کرنا ہے کہ وہ کس طرح کا امن چاہتا ہے۔
پبلک ٹیلی ویژن ’زیڈ ڈی ایف‘ کو ایک انٹرویو میں شولز نے کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے غلط اندازہ لگایا تھا کہ وہ یوکرین سے علاقہ حاصل کرکے حملے کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے اور اس کے بعد مغربی ممالک ماسکو پر عائد پابندیاں ہٹالیں گے۔
کیف میں بہت جلد امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھل جائے گا
ایک امریکی سفارتکار نے کہا ہے کہ بہت جلد امریکہ یوکرین میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دے گا۔
چارج ڈی افیئرز کرسٹینا کیون نے کیف میں ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ سفارت خانہ کھولنے سے پہلے ضروری ہے کہ سیکیورٹی کے ماہرین کی ہدایت کا انتظار ضروری ہوگا۔
بقول ان کے، ''جب وہ ہمیں بتائیں گے تو ہم واپس ہوں گے، واپس جائیں گے''۔
کیون نے کہا کہ کچھ ہفتوں تک امریکی سفارت کار دن میں یوکرین کے دارالحکومت آتے جاتے رہیں گے۔
ان کے الفاظ میں، ''ہمیں ازحد خوشی ہے کہ ہم واپس آئے ہیں اور ہم اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یوکرین یہ لڑائی جیتے''۔
کیون نے کہا کہ ''میں یہ کہوں گی کہ روس کے لیے یہ پیغام ہے کہ 'آپ ناکام ہوگئے ہو، یوکرین ابھی تک قائم ہے۔''
چوبیس فروری کو روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت سے دو ہفتے قبل امریکہ نے کیف میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا تھا۔
یہود مخالف بیان پر اسرائیل کا شدید اظہاربرہمی، روسی سفیر طلب
اسرائیل نے روس کے وزیر خارجہ کے نازی ازم اور یہود مخالف تبصروں پر روسی سفیر کو طلب کر لیا ہے۔ایک بیان میں اسرائیل نے اسے'' ایک خوفناک تاریخی غلطی'' قرار دیا ہے۔
سرگئی لاوروف نے ایک اطالوی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یوکرین میں نازی عناصر اب بھی ہوسکتے ہیں، چاہے ملک کے صدر سمیت کچھ شخصیات یہودی ہی کیوں نہ ہوں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایڈولف ہٹلر بھی یہودی نسل کے تھے۔
یہ یوکرین کی جنگ پر اسرائیل کے مؤقف کے برعکس ہے جہاں اس نے غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لیپڈ کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
روس کی آن لائن غلط اطلاعات کی مہم، غیر ملکی سربراہان کو ہدف بنایا جارہا ہے
برطانیہ کے ایک تحقیقی ادارے کے مطابق، روسی 'سائبر سپاہی' غیر ملکی سربراہان کو ہدف بنارہے ہیں جس میں سماجی میڈیا کے پلیٹ فارمز کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور یوکرین کے خلاف جارحیت کو جائز قراردیتے ہوئے بڑے پیمانے کی غلط اطلاعات کی جارہی ہیں۔
برطانیہ کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز بتایا کہ سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک کارخانے سے کام کرنے والے یہ تنخواہ دار کارندے ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حامی بھرتی کرنے اور ان کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو کریملن کے ناقدین کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو جعلی خبروں سے بھر دیتے ہیں، جن میں اپنے انداز سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کی لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے۔
وزارت خارجہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نشاندہی سے بچنے کے لیے اس نام نہاد 'ٹرول فیکٹری' نے نئی تکنیک وضع کی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنا مواد تخلیق کرنے کے بجائے، کریملن کی حمایت میں یہ بیانات حقیقی صارفین کے اکاؤنٹس سے جاری کرائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی کارروائی کے نمایاں نشانات آٹھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں، جن میں ٹیلی گرام، ٹوئٹر، فیس بک اور ٹک ٹاک شامل ہیں۔
برطانوی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی میں سیاست دان اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہدف بنایا جاتا ہے جن میں برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور بھارت شامل ہیں ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس سائبر کارروائی کے تانے بانے یوگنی پریگوزن سے جا ملتے ہیں، جن پر امریکہ اور برطانیہ دونوں نے تعزیرات لگا رکھی ہیں، چونکہ وہ کریملن کی حمایت میں انٹرنیٹ کی ایسی کارروائیوں کی مالی حمایت کرتے آئے ہیں۔
برطانیہ کی وزیر خارجہ، لز ٹروس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''ہم کریملن اور اس کے جعلی ' ٹرول فارمز 'کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ آن لائن اسپیسز کا استعمال کرتے ہوئے پوٹن کی ناجائز لڑائی کے بارے میں دروغ گوئی کرتے پھریں''۔