روس کا یوکرین کے متعدد محاذوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنانے اور 600 سے زائد فوجی ہلاک کرنے کا دعویٰ
روس نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس کے توب خانے نے گزشتہ رات یوکرین کے متعدد ٹھکانوں اور محاذوں کو نشانہ بنایا، جس دوران 600 سے زائد فوجیوں کو ہلاک کردیا۔
روسی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ یوکرین میں روسی وفاق کی مسلح افواج نے خصوصی فوجی کارروائی جاری رکھی؛ اور یہ کہ 600 سے زائد قوم پرستوں، اسلحے اور فوجی سازو سامان کو تباہ کیا گیا ہے۔
وزارت دفاع نے یہ بھی بتایا کہ میزائلوں کی مدد سے یوکرین کے وسطی کرووگراڈ خطے میں واقع کناٹوو ایئرفیلڈ پر ہوابازی کے آلات کو تباہ کیا گیا، جب کہ جنوبی شہر، مکولیف میں گولہ بارود کے ڈپو کو ہدف بنایا گیا۔
24 فروری کو روس نے لاکھوں کی تعداد میں فوج یوکرین بھیجی، جسے وہ خصوصی فوجی کارروائی قرار دیتا ہے، جس کا مقصد، بقول اس کے، یہ ہے کہ اپنے جنوبی ہمسایہ ملک کی فوجی استعداد کو کمزور کیا جاسکے اور ان افراد کو اکھاڑ پھینکا جائے، جنھیں وہ خطرناک قوم پرست قرار دیتا ہے۔
یوکرین کی افواج نے اب تک شدید مزاحمت دکھائی ہے،جب کہ مغرب نے فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے روس کے خلاف سخت تعزیرات عائد کردی ہیں۔
یوکرین کے زیادہ تر اسکولوں کی عمارتیں گر چکی ہیں یا مکمل طور پر مسمار ہوگئی ہیں، یونیسیف
اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین میں وہ جن 17 فی صد اسکولوں کی مدد کرتا رہاہے ، روس کی جانب سے اپنے ہمسایہ ملک کے خلاف حملے کے بعد ، یا تو ان کی عمارتیں گر چکی ہیں یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چھ میں سے ایک اسکول مسمار یا تباہ ہو گیا ہے۔
عالمی ادارے نے بدھ کو کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں میں دو اسکولوں پر حملہ کیا گیا اور یہ کہ لڑائی چھڑنے کے بعد سے اب تک ملک بھر کے سینکڑوں اسکول یا تو گولہ باری کی زد میں آئے ہیں یا پھر فضائی حملوں میں تباہ ہوئے ہیں۔ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
یونیسیف کےنمائندے برائے یوکرین، مورت ساہین نے کہا ہے کہ یوکرین میں تعلیمی سال کا آغاز اس امید اور آسرے پر ہوا تھا کہ کووڈ 19 کے بعد بچوں کی بہبود کے لیے کوئی عملی کام ہوگا۔ برعکس اس کے، سینکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں اورلڑائی کی وجہ سے کلاس روم بند پڑے ہیں، اسکولوں پر تالے لگے ہوئے ہیں یا پھر تعلیمی سہولیات تباہ ہوچکی ہیں۔
ادارے نے کہا ہے کہ وہ بچے جو آن لائن تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں ان تک رسائی کی کوشش کی جارہی ہے۔
یونیسیف نے کہا ہے کہ اس کی جانب سے کچھ مقامات منتخب کر لیے گئے ہیں جہاں اساتذہ، نفسیات دا ن اور کھیلوں کے معلم روزانہ کی بنیاد پر بچوں تک رسائی کے کوشاں ہیں۔
فرانس اور بھارت کا یوکرین میں مخاصمانہ کارروائیوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ
بھارت اور فرانس نے بدھ کو یوکرین میں فوری طور پر مخاصمانہ کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر روس کی مذمت نہیں کی، جس نے اپنے ہمسایے پر حملہ کیا ہے۔
بھارت جو اپنی فوج کے لیے زیادہ تر سازو سامان روس سےخریدتا ہے، وہ ایک طویل عرصے سے مغرب اور ماسکو کے ساتھ سفارتی تعلقات کی کسی واضح سمت پر گامزن نہیں ہے، یعنی نہ تو وہ روس کی مذمت کرتا ہے، نہ ہی یوکرین کے خلاف کارروائی پر اقوام متحدہ کی قرارداد میں وہ یوکرین کا ساتھ دینے پر تیار ہے۔
پیرس میں مذاکرات اور ضیافت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں مودی اور فرانسیسی صدر امانوئل میک خواں نے کہا ہے کہ فرانس اور بھارت نے یوکرین میں جاری تنازعے اور انسانی ہمدردی کی نوعیت کے بحران پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے واضح طور پر یوکرین میں شہری آبادی کو ہلاک کرنے کی مذمت کی اور مخاصمانہ کارروائیوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ دونوں فریق مکالمے اور سفارت کاری کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں، تاکہ لوگوں کی تکالیف کو فوری طور پر ختم کیا جاسکے۔
تاہم، صرف فرانس نے ہی یوکرین کے خلاف ناجائز اوربلاجواز جارحیت پر روس کی مذمت کی ہے۔
چیچنیا پر یلغار کے کئی عشرے بعد بھی روس نے چیچن آبادی کو نہیں بخشا
20 سال قبل ولادیمیر پوٹن نے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کو تہس نہس کردیا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے ان کی فوج نے اس وقت ماریوپول کا حشر کیا ہے؛ اور چیچن مہاجرین اب تک یورپ میں تارکین وطن کے طور پر رہائش پذیر ہیں، ساتھ ہی روس کے اثر و رسوخ کا خوف ابھی تک ان کے ذہنوں پر طاری ہے۔
ماسکو کے ساتھ دو خونریز لڑائیوں کے بعد، شمالی قفقاز کے اس چھوٹے سے مسلمان اکثریت والے جمہوریہ کے لاکھوں لوگ ملک چھوڑ گئے تھے۔ پوٹن نے 1999ء میں اس علیحدگی پسند خطے کے خلاف مہم جوئی کی تھی۔
روسی سربراہ نے مرد آہن کی روپ میں رمضان قادروف کو چیچنیا میں متعارف کرایا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے تمام مخالفین کو سختی کے ساتھ ختم کردیا ہے اور وہ پوٹن کے ساتھ اپنی وحشیانہ وفاداری کا دم بھرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
آسٹریا میں یورپ کی چیچن برادری کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔ 35000چیچن ویانا کے شمال مشرقی علاقے میں تعارف کے بغیر نچلے طبقے کا کام کاج کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت سیکیورٹی گارڈ کا کام کرتی ہے جب کہ خواتین چھوٹے بچوں کو پالنے میں مدد دیتی ہیں۔
لیکن وہ ابھی تک سہمے ہوئے رہتے ہیں، جب کہ ویانا میں چیچن آبادی کی کچھ کریانہ کی دکانیں ہیں اور عروسی لباس تیار کرنے کے کام سے وابستہ ہیں۔