یوکرین کا وفد روس سے مذاکرات کے لیے بیلاروس پہنچ گیا
یوکرین کے صدارتی دفتر نے تصدیق کی ہے کہ کیف کا ایک وفد پڑوسی ملک بیلاروس کی سرحد پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ روسی ہم منصب کے ساتھ امن مذاکرات پر بات چیت کرے گا۔
روس کو فٹ بال ورلڈکپ کوالیفائنگ میچز سے باہر نہ کرنے کے فیفا کے فیصلے پر یورپی ملک ناراض
فٹ بال کی عالمی تنظیم 'فیفا' کی طرف سے روس کو ورلڈ کپ کوالیفائنگ سے فوری طور پر باہر نہ کرنے پر یورپی ممالک کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آرہا ہے۔
فیفا نے روس کو ورلڈکپ کوالیفائنگ میچز کے لیے روسی فٹ بال یونین کے نام سے غیر جانبدار مقامات پر پرچم اور ترانے کے بغیر کھیلنے کی اجازت دی ہے۔ یورپی ملکوں نے فیفا کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں پولینڈنے فیفا کے ردِعمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی 24 مارچ کو شیڈول کیے گئے روس سے ورلڈ کپ پلے آف سیمی فائنل میں کھیلنے سے انکار کے فیصلے پر ڈٹا ہوا ہے۔
پولش فٹ بال فیڈریشن کے صدر سیزری کولیسزا نےفیفا کے فیصلے کو مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ "ہمارا مؤقف برقرار ہے کہ پولینڈ کی قومی ٹیم روس کے ساتھ نہیں کھیلے گی، چاہے ٹیم کا نام کچھ بھی ہو۔"
یوکرین کا جنگ بندی اور روسی افواج کے انخلا کا مطالبہ
یوکرین نے فوری جنگ بندی اور روسی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ یوکرین کا ایک وفد پیر کو روس کے ساتھ بات چیت کے لیے بیلاروس کی سرحد پر واقع کانفرنس کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔
ایک بیان میں یوکرین کے صدارتی مشیر میخائیلوف پوڈولیاک اور یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ یوکرین کو فوری طور پر نیٹو کی رکنیت دی جائے۔
زیلنسکی کے دفتر نے کہا ہےکہ یوکرینی وفد میں وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف شامل ہیں۔
روس کو توقع سے کہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا
امریکی انٹیلی جنس کو توقع ہے کہ بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو 48000 فوجیوں پر مشتمل اپنی مضبوط فوج کو اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں یوکرین میں جاری جنگ میں شامل کر دیں گے، تاکہ روس کو یوکرین پر ناکام حملے میں تقویت مل سکے۔
اب تک بیلاروس کو روسی افواج کے لیے شمال سے کیف پر حملہ کرنے کے مقصد سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور خیال ہے کہ بیلاروس کے صرف اطلاعات کے مطابق چند خصوصی دستوں نے ہی لڑائی میں حصہ لیا تھا؛ لیکن روسی حملے کے بعد کریملن کو توقع سے کہیں زیادہ مضبوط مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روسی رہنما ولادیمیر پوٹن اب اپنی جارحانہ کارروائی میں تقویت کے لیے اپنے دیرینہ اتحادی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔