ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کو ایک نئی رپورٹ میں شام میں روس کی فضائی کارروائیوں پر نکتہ چینی کی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمص، ادلب اور حلب کے صوبوں میں کی گئی بمباری میں کم از کم 200 سولین ہلاک ہوئے ہیں۔
حقوق انسانی کے گروپ نے کہا ہے کہ روسی فضائی حملوں کا نشانہ گھر اور اسپتال بنے ہیں، اور یہ کہ اُن کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اِن کے قریب لڑاکا یا فوجی اہداف نہیں تھے۔
ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام ڈائریکٹر، فلپ لوتھر نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ روسی فضائی حملے براہ راست سولین یا شہری املاک پر کیے گئے ہیں، جن میں رہائشی علاقے شامل ہیں جہاں کوئی فوجی ہدف یا فوجی تیصیبات نہیں تھیں، جس کے نتیجے میں، سولینز کی ہلاکتیں واقع ہوئیں یا وہ زخمی ہوئے۔
بقول اُن کے، ’ایسے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں‘۔
ایمنسٹی نے یہ بھی کہا کہ اُس کے پاس کوئی ثبوت ہیں کہ روس نے ممنوعہ ’کلسٹر بم‘ اور’اَن گائڈڈ بم‘ استعمال کیے ہیں۔ روس نے ایمنسٹی کی اِس رپورٹ کا جواب نہیں دیا۔
روس نے گذشتہ ستمبر میں شام کے خلاف اہم فوجی فضائی حملے شروع کیے، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کی حمایت کرنا ہے۔
روس نے کہا ہے کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے، لیکن، اُس کے خلاف وسیع تر نکتہ چینی جاری رہی ہے، جب کہ اُن کے حملوں کا ہدف زیادہ تر مخالف گروہ رہے ہیں۔
ترک وزیر اعظم احمد داؤداوگلو نے منگل کو روس کے خلاف نکتہ چینی تیز کردی، چونکہ وہ سولین آبادی اور معتدل اپوزیشن لڑاکوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ قانون سازوں کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران، اُنھوں نے، بقول اُن کے، اتوار کے روز روس نے مہلک فضائی حملے کیے، جن میں باغیوں کے زیر قبضہ ادلب کا شمال مغربی شہر شامل ہے۔
روس اور ترکی کے مابین تناؤ گذشتہ ماہ کے اواخر میں اُس وقت زور پکڑ گیا جب ترکی نے ایک روسی فوجی لڑاکا طیارہ مار گرایا، جس کے لیے ترکی کا کہنا تھا کہ وہ شامی سرحد کے قریب بھٹک کر اُس کی فضائی حدود میں آگیا تھا۔ روس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
ادلب میں فضائی حملوں پر شام کے اپوزیشن گروپوں نے بھی روس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، جس کے لیے اُن کا کہنا ہے کہ اس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس میں سے متعدد شہری تھے۔
ایک علیحدہ امریکی قیادت والے اتحاد، جس میں ترکی بھی شامل ہے، عراق اور شام میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔
اتوار کو ادلب میں مہلک فضائی حملوں کے بارے میں روس کی مبینہ ذمہ داری کے بارے میں، امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے کہا ہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے جس کی چھان بین امریکہ یا امریکی اتحاد کو کرنی چاہیئے کہ روسی طیارے کی بمباری سے کتنا اضافی نقصان ہوا۔
اہل کار کے بقول، ’روسیوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، وہ کس کو ہدف بنا رہے ہیں، وہ کس ہدف کو بھول رہے ہیں‘۔
اہل کار نے مزید کہا کہ امریکی حکام کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ کچھ روسی فضائی حملے ہدف پر نہیں لگے، اور اُس کے پاس قابل بھروسہ شواہد موجود ہیں کہ روسی بم اسپتال اور اسکولوں پر جاگرے ہیں، جس سے بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے۔