روس کے صدر دمتری میدویدیف نے عندیہ دیا ہے کہ شام کو ایک "سخت پیغام" دینے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مجوزہ قرارداد میں اگر حکومت مخالف مظاہرین کا ذکر بھی کیا جائے تو ان کا ملک اس صورت میں اسے قبول کرسکتا ہے۔
جمعرات کو 'یورو نیوز' ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں روس کے صدر کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت کی جانب سے "طاقت کے غیر متوازن استعمال" اور "بڑے پیمانے پر ہلاکتیں" ناقابلِ قبول ہیں۔
تاہم صدر میدویدیف نے شام میں حکومت مخالف مظاہرین کی کارروائیوں پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین "یورپ کے جمہوری نظریات " کے قائل نہیں ا ور ان میں سے بعض کو 'دہشت گرد' تصور کیا جاناچاہیے۔
واضح رہے کہ روس شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل سے قرارداد کی منظوری کے لیے مغربی ممالک کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس شامی حکومت پر ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کے لیے زور دیتا آیا ہے۔
جمعرات کو دیے گئے انٹرویو میں جہاں روس کے صدر نے عالمی ادارے کی مجوزہ قرارداد کی حمایت کا عندیہ دیا، وہیں انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کا ملک ایسا صرف اسی صورت میں کرے گا جب "صدر بشار الاسد اور شامی حکومت کو یک طرفہ طور پر مذمت کا نشانہ" نہ بنایا جائے۔
دریں اثناء شامی حزبِ مخالف کے رہنما عمار قرابی نے حکومت مخالفین کو روس کی حمایت میسر نہ آنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ جمعہ کو اپنے ایک بیان میں قرابی کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ روس "شام کی سیاسی صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لیے ایک مثبت اور فعال کردار" ادا کرے گا۔
قرابی اور شامی حزبِ مخالف کے دیگر رہنماؤں کا ایک وفد شام میں روس کے سفیر میخائل مارگیلوف کے ہمراہ ماسکو کے دورے پر ہے۔ سفیر مارگیلوف دورے سے واپسی پر پیر کو شامی صدر کے ایک قریبی معاون سے بھی ملاقات کریں گے۔