شام کے صدر بشار الاسد نے ایک نیا قانون جاری کیا ہے جس کے تحت دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کرنے والے افراد کے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے منگل کو جاری کیےگئے اس اعلان سے ایک روز قبل صدر بشار الاسد کی حکومت نے ملک میں عرب لیگ سے وابستہ مبصرین کو داخلے کی اجازت دینے پہ اتفاق کیا تھا ۔
مبصرین 'عرب لیگ' کے تجویز کردہ امن منصوبے کے تحت حزبِ اختلاف کے مظاہرین کے خلاف حکومتی کاروائیاں روکے جانے اور دیگر تجاویز پہ عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔
شام کے نائب وزیرِخارجہ فیصل المقداد نے پیر کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخظ کیے تھے جس کے تحت عرب لیگ کے مبصرین کی شام میں ایک ماہ کے لیے تعیناتی پہ اتفاق کیا گیا ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے امید ظاہر کی ہے کہ شام میں ان کا مشن آئندہ چند روز میں کام شروع کردے گا۔
عرب لیگ نے امن معاہدہ سے اتفاق نہ کرنے کی صورت میں شام پہ مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے اس معاملے کو سلامتی کونسل کے سپرد کرنے کی دھمکی دی تھی جس پر شامی حکومت کو منصوبے کی منظوری دینا پڑی۔
تاہم ناقدین نے شامی حکومت کی جانب سے مجوزہ امن منصوبہ منظور کرنے کے اقدام کو محض ایک تاخیری حربہ قرار دیا ہے۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کی جانب سے عرب لیگ کے منصوبے پہ دستخط کیے جانے کے باوجود پیر کو بھی ملک میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری رہا۔
ان افراد کے دعووں کے مطابق سرکاری افواج نے فوج سے بغاوت کرنے والے لگ بھگ 70 جنگجووں کو اس وقت قتل کردیا جب وہ ترکی کی سرحد کے ساتھ قائم اپنے مورچوں سے پسپا ہورہے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پیر کو ملک کے دیگر حصوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کےد وران 30 مزید افراد بھی ہلاک ہوئے۔
قبل ازیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پیر کو بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں شام کی پرتشدد صورتِ حال کی مذمت کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ نو ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک کم از کم پانچ ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔