روس نے بدھ کو کہا ہے کہ وہ افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے 16 نومبر کو ہونے والے کثیر الجہتی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔
افغانستان پر مشاورت کے ’ماسکو فارمیٹ‘ نامی اس جلاس میں،افغانستان کے لیےچین، بھارت، پاکستان، قازقستان، ایران، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی سفیروں کی شرکت متوقع ہے ۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ایاز گل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ روسی عہدہ داروں نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کی اسلام پسند طالبان حکومت مذاکرات میں شرکت نہیں کرے گی، حالانکہ اس نے اکتوبر 2021 میں ماسکو فارمیٹ کے آخری اجلاس میں شرکت کی تھی۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کو کہا کہ ان کی حکومت روس کے دارالحکومت میں منصوبہ بندی کے بعد طالبان اور دیگر افغان سیاسی قوتوں دونوں کے لیے ایک تفصیلی بریفنگ دے گی۔ وہ سابق افغان حکومتی عہدیداروں اور سیاسی شخصیات کا حوالہ دے رہے تھے جو طالبان کے قبضے کے بعد انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
لاوروف نے ماسکو میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم طالبان کے نمائندوں سے باقاعدہ رابطہ رکھتے ہیں جنہیں ماسکو فارمیٹ کے اجلاس کے ایجنڈے کے بارے میں بتایا جائے گا۔ ہم ان سے کوئی بات خفیہ نہیں رکھتے‘۔
دوسری طرف طالبان کی وزارت خارجہ نے میٹنگ میں اپنی نمائندگی کے بغیر روس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کو "نامکمل" قرار دیا ہے، تاہم اس ردعمل میں ایسی شدت نظرنہیں آتی جو افغانستان کے بارے میں کوئی اجلاس یا بات چیت ان کے بغیر کیے جانے پر متوقع ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور اقوام متحدہ کے لیے سابق سفیر،شمشاد احمد خان بین الاقوامی اور خطے کے امور کے ایک جہاںدیدہ تجزیہ کار ہیں۔ افغان امور میں وہ خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہاں قیام امن کے عمل کو تقویت دینے کے لیے متعدد اجلاسوں کی میز بانی کرچکے ہیں۔ وہ روس کی میزبانی میں اس بات چیت کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔
اس اجلاس میں طالبان کو مدعو نہ کیے جانے پر شمشاد صاحب کا کہناتھا، ’بظاہر کچھ بھی نظر آرہا ہو اس وقت، لیکن بین الاقوامی سیا ست میں اور سفارت کاری میں جو کچھ بھی نظر آرہا ہو تا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی اور جو نظر نہیں آتا وہ سچ ہو تا ہے۔‘
پاکستان کے اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روسیوں کے بہت اچھے مراسم ہیں طالبان کے ساتھ، یہ اور بات ہے کہ روسی ابھی تک اس وقت کو نہیں بھولے جب امریکہ نے طالبان کے ساتھ مل کران کو افغانستان میں شکست دی تھی۔ تاہم روس جو کچھ کر رہا ہے وہ اپنے تئیں حالات کو اسٹیبلائیزکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ماسکو فارمیٹ یا کسی بھی بین الاقوامی فورم پر ہونے والی بات چیت کو شمشاد احمد خان مثبت سمجھتے ہیں۔ووہ کہتے ہیں افغانستان میں کلچر اور تعلیم کے حوالے سےاور وہاں جس نسلی تقسیم کو اکھٹا کر نے کی ضرورت ہے،اجلاس میں اس پربات کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا۔ ’ماسکو میں اس میٹنگ کے ذریعہ ایک طرح سے پریشر طالبان پر بھی پڑے گا۔یہ جہاں افغانستان میں امن کے عمل کو فروغ دینے کی کوشش ہے، اس کے ساتھ ساتھ طالبان پر بھی زوردیا جارہا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو کچھ ریشنالائز کریں‘۔
روس کے وزیر خارجہ نے طالبان سے اپنی حکومت کےاس مطالبے کی تجدید کی ہےکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایک جامع سیاسی نظام کے ذریعے افغانستان پر حکومت کریں، اور خواتین کی کام اور تعلیم تک رسائی پر پابندیوں کو نرم کریں۔
لاوروف نے مزید کہا کہ ’ہم نے ابھی تک مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کیا ہے۔ ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہمارے ساتھی جو کابل میں برسراقتدار ہیں، اپنے عوام کے لیے اعلان کردہ وعدوں کو پورا کرنے میں خاطر خواہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے، ’خوش قسمتی سے، افغانستان میں اب ایک آزاد، جوابدہ اور قانونی حکومت ہے جو موثر سییکورٹی کے حصول، سرحدوں کو محفوظ بنانے اور سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے امور میں پڑوسی، علاقائی اور دنیا کے ممالک کے ساتھ مثبت انداز میں انگیج ہونے میں کامیاب رہی ہے‘۔
اس بیان میں متنبہ کیا گیا ہےکہ اس طرح کی میٹنگوں میں ، افغان حکومت کی عدم موجودگی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
ماسکو فارمیٹ پر طالبان کے ردعمل پرشمشاد صاحب کہتے ہیں،’ایسا مصلحتأ کیاجاسکتا ہے۔ طالبان نے بتادیا کہ ہماری تو کم از کم لائین یہ ہے تو اب ماسکو ،ان کے بغیر لیکن بلا شبہ ان کے آشیرباد کے ساتھ کو شش کر رہا ہے کہ افغانستان میں کس طرح امن کے عمل کو تقویت دی جا سکتی ہے۔‘
غیر ملکی حکومتوں نے ابھی تک طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی حکمرانی کے لیے قانونی حیثیت چاہتے ہیں تو انہیں خواتین پر پابندیاں کم کرنے کی ضرورت ہے۔
طالبان اپنی حکمرانی پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ افغان ثقافت اور اسلامی قانون کے مطابق ہے۔