امریکہ اور روس کےتعلقات کی از سر ِنوتشکیل کے لئے، مائیکل مک فال نےتین سال تک وائٹ ہاؤس میں کام کیا۔ لیکن سرد جنگ کے ختم ہونے پر روس میں سفیر بننے کے کچھ ہی دنوں بعد، اُنھیں سخت ترین امریکہ مخالف بیانات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
’نیٹ ورک آف پیوٹن سپورٹرز‘ کہلانے والے ایک گروپ نے اِس جمعرات کو ماسکو میں امریکی سفارتخانے کے سامنے عجلت سے ایک مظاہرہ کیا۔ ویسے تو یہ ایک معمول بن چکا ہے، لیکن پھر بھی یہ مظاہرہ اتنی تیزی سے ہوا کہ رپورٹروں کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ختم بھی ہو چکا تھا۔
روس کی صدارت کے لئے چلائی جانے والی انتخابی مہم کے دوران ، گذشتہ ماہ امریکی سفارتخانہ ایک مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔
وزیر اعظم ولادیمیر پیوٹن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین، امریکی حکومت کی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانونساز جو امریکی سفارتخانے میں داخل ہوتا ہے، وہ غدار ہے۔
اپنی تعیناتی کے دوسرے ہی دن، امریکی سفیر مائیکل مک فال کو روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک ایسا شخص قرار دیا گیا جو روس میں عرب بیداری تحریک جیسی بے چینی کو ہوا دینے کے لئے ایک خفیہ مشن پر آیا ہے۔
سفارتخانے کے اندر اور باہر، اِس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا یہ انتخابات سے پہلے کی سیاست ہے یا پھر دوطرفہ تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کا خاتمہ۔
ماسکو میں کارنیگی سینٹر کےتجزیہ کار، نکولائی پیٹروو کا کہنا ہے کہ مسٹر پیوٹن چار مارچ کو ہونے والےانتخابات سے پہلے، اپنی ریٹنگ کو بہتر بنانے کے لئے منفی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔
پیٹروو کہتے ہیں’کریملن اِس وقت انتخابات پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ، اور امریکہ مخالف کارڈ کو ترپ کے پتے کے طور پر کھیل رہا ہے‘۔
پیٹروو کا کہنا ہے کہ رائے شماری سے تین ہفتے پہلے، مسٹر پیوٹن کو ایک ایسے دشمن کی ضرورت ہے جس پر لوگ یقین کر لیں۔ اور امریکہ بطور واحد سپر پاور کے اس کے لئے نہایت موزوں ہے‘۔
اِس میں خطرہ یہ ہے کہ سفیر مک فال پر کیا گیا حملہ وائٹ ہاؤس پر حملہ خیال کیا جاتا ہے۔ اگر چار مارچ کے بعد بھی یہ حملے جاری رہے ، تو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما روس سے متعلقہ امور پر یہ خیال کرتے ہوئے کم وقت صرف کریں گے کہ تعلقات کی از سر نو تشکیل کے کوئی نتائج نہیں نکل رہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ مسٹر پیوٹن مارچ میں ہونے والے انتخابات میں تیسری مدت کے لئے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ یا تو وہ چار مارچ کو پہلے مرحلے کے انتخابات میں منتخب ہو جائیں گے یا پھر پچیس مارچ کو دوسرے مرحلے کے انتخاب میں۔
حالانکہ صدر باراک اوباما تین سال سےصدر کے عہدے پر فائز ہیں، لیکن وہ مسٹر پیوٹن کو زیادہ نہیں جانتے۔ کیونکہ پروٹوکول کے اعتبار سے امریکی صدر کی تمام ملاقاتیں، صدر دمتری میدویدیف سے ہوئی ہیں۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران دونوں صدور نے تعلقات کی از سر نو تشکیل کی پالیسی کو اپناتے ہوئے، مشترکہ مقاصد پر کام کیا ہے۔
تاہم، مارک فےگن سمیت دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تعلقات میں بہتری کی پالیسی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فے گن کی پیش گوئی ہےکہ انتخابات کے فوری بعد، کریملن کے عہدیدار امریکہ مخالف بیانات میں کمی کر کے امریکہ روس تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کم کر دیں گے۔
اِن حالات میں سرد جنگ کا جوشِ خطابت بھی فروری کی برف کے ساتھ ہی پگھل جائے گا۔