پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے پیشِ نظر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں نئے ٹیکس عائدکیے ہیں۔
اس فیصلے سے متعلق بیشتر ماہرین معیشت کی رائے ہے کہ نئے ٹیکسز کا نفاذ غیر منصفانہ اقدام ہے اور اس کے باعث ملک میں طبقاتی تقسیم مزید بڑھے گی۔ حکومت کی جانب سے آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کسی حد تک کٹوتی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی طرح سے آئی ایم ایف کو قرض پروگرام کی بحالی پر راضی کیا جاسکے۔
کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے رکن اور ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس دینے والوں ہی پر بوجھ بڑھایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ذیشان مرچنٹ کا کہنا تھا کہ وہ تنخواہ دار ملازمین جو سوا دو لاکھ روپے ماہانہ کماتے تھے انہیں اب 19 ہزار روپے سے بھی زائد یعنی اپنی سالانہ آمدن کا 8.6 فی صد ٹیکسں ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح پانچ لاکھ کمانے والوں کو اپنی سالانہ آمدن کا 18 فی صد سے زائد ، 10 لاکھ ماہانہ کمانے والوں کو 26 فی صد اور 12 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو اپنی سالانہ آمدن کا 28 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
معاشی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ رسمی کاروبار اور تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے لیکن غیر رسمی کاروبار کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کیا ترغیب دی گئی ہے؟ بجٹ میں اس کا جواب نہیں ملتا۔
ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ بڑے کاشت کاروں، خوردہ فروش، تاجر، پراپرٹی ٹائیکونز اور اس طرح کے دیگر افراد کو ایک بار پھر استثنیٰ مل گیا ہے جو ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔
انہوں بتایا کہ وہ افراد جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ان کی سالانہ آمدنی اربوں میں ہے مگر وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی حکومت نے انہیں ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے کوئی ترغیب دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس سے متعلق حکومتی اقدامات کے نتیجے میں جہاں متوسط طبقات کی آمدن میں مزید کمی آئے گی وہیں ان کی زندگی مزید مشکل ہوگی جب کہ متوسط اور غریب طبقہ تو پہلے ہی بے پناہ مہنگائی سے پریشان ہے۔ دوسری جانب اب ٹیکس چوری میں بھی مزید اضافہ ہوگا اور لوگ اپنی قابل ٹیکس آمدنی ظاہر کرنے کے بجائے چھپائیں گے۔
پاکستان کی مجموعی قومی آمدن یعنی جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس دینے کی شرح 10 فی صد سے بھی کم ہے۔
ماہرین معیشت کے خیال میں حکومت کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے اس صورتِ حال میں ٹیکس لینے پڑتے ہیں اور دوسری صورت براہ راست ٹیکس کے بجائے بالواسطہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں جو امیر و غریب دونوں کو دینا پڑتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسز ہیں۔ حکومت نے اس بار پیٹرولیم لیوی بھی 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’آئی ایم ایف پروگرام کے لیے ایک اور کوشش‘
محقق اور ماہر اقتصادیات سمیع اللہ طارق کے بقول حکومت کسی حد تک اپنے اخراجات کم کرکے اور نئے ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف سے ڈیل کو ہر طور پر ممکن بنانے کی کوشش کررہی ہےکیوں کہ اس کے بغیر پاکستان کو آئندہ سال بیرونی ادائیگیاں پوری کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق 16 جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں پاکستان کے پاس مجموعی طور پر 8 ارب 86 کروڑ ڈالر موجود تھے جن میں سے اسٹیٹ بینک کے اپنے ذخائر صرف 3 ارب 53 کروڑ ڈالر تھے۔ زرِ مبادلہ کے ان ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 48 کروڑ سے زائد کی بڑی کمی دیکھی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں دوسری جانب پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اگلے مالی سال میں تقریباً 25 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے زیر التوا جائزہ مکمل کرنے کی آخری کوشش کے طور پر گزشتہ تین دنوں میں تفصیلی بات چیت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا بجٹ میں حکومت نے جو اقدامات متعارف کیے ہیں ان کے نتیجے میں پروگرام کی بحالی کے امکانات موجود ہیں۔
اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ بجٹ میں نئے ٹیکسز کے نفاذ سے عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ یا تنخواہوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانےکے لیے بجٹ خسارے پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے مزید 215 ارب روپے کے نئے ٹیکسز (مجموعی طور پر 438 ارب روپے کے) نافذ کرنے کے ساتھ حکومتی اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی بھی کی ہے۔
اس سے قبل آئی ایم نےاپنے بیان میں بجٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے مواقع ضائع کیے گئے ہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے بجٹ میں بعض اقدامات کو اپنے پروگرام کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔