رسائی کے لنکس

سانگھڑ میں اونٹنی پر تشدد کا واقعہ، مصنوعی ٹانگ لگانے کے لیے کئی ماہ درکار ہوں گے


زخمی اونٹنی کو دیکھنے کے لیے سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے بھی اینیمل شلٹر ہوم کا دورہ کیا۔
زخمی اونٹنی کو دیکھنے کے لیے سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے بھی اینیمل شلٹر ہوم کا دورہ کیا۔
  • سانگھڑ میں جس اونٹنی کی ٹانگ کاٹی گئی تھی اس کو مصنوعی ٹانگ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
  • معالجین کو اونٹنی کے مسلسل بیٹھے رہنے سے اس کے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے۔
  • ماہرین کے مطابق اونٹنی کی زخمی ٹانگ کو ٹھیک ہونے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں اس کے بعد اس کی مصنوعی ٹانگ لگانے کا عمل شروع ہو گا۔

سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے منگلی میں اونٹنی کی ٹانگ کاٹے جانے کے بعد اس کی مصنوعی ٹانگ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعضا تیار کرنے والی مقامی کمپنی کے ماہرین نے اونٹنی کا معائنہ کیا اور اس کی مصنوعی ٹانگ پاکستان ہی میں تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ادھر واقعے میں گرفتار افراد کو تفتیش کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

مقامی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پولیس اصل ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مصنوعی اعضا تیار کرنے والی کمپنی بائیونکس کے چیف ایگزیکٹو افسر اویس قریشی کا کہنا ہے کہ اونٹنی کے زخم ٹھیک ہونے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں جب کہ مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اونٹنی کے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کے بقول زخمی اونٹنی کو کھڑا کرنے کے لیے اگلے 15 روز میں ایک خصوصی بیلٹ تیار ہو گا۔

اویس قریشی نے مزید بتایا کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے ویٹنری ڈاکٹرز بھی زخمی اونٹنی کے علاج کے لیے آن لائن رابطے میں ہیں اور اونٹنی کے لیے مصنوعی ٹانگ کاربن فائبر، اسٹیل اور ایئرکرافٹ ایلمونیم سے تیار کی جائے گی جسے زخم مندمل ہونے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔

بائیونکس کے سی ای او نے کہا کہ طبی ماہر زخمی اونٹنی کی سرجری پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ابھی اس کی مزید تفصیلات طے کیا جانا باقی ہیں۔

اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسےسانگھڑ سے کراچی منتقل کیا گیا تھا جہاں اس وقت ایک شیلٹر ہوم میں اس کا علاج جاری ہے۔

اونٹنی کے ساتھ ہوا کیا تھا؟

سوشل میڈیا پر 13 جون کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں نظر آ رہا ہے کہ اونٹنی جس کی عمر سات سے آٹھ ماہ ہے، درد سے کراہ رہی ہے۔ اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی ہے۔

مقامی صحافی سارنگ وسان کے مطابق اس واقعے میں ملوث ملزم کا نام غلام رسول شر ہے جس نے غصے میں آ کر تیز دھار آلے سے اپنی زمین پر چرنے والی اس اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی تھی۔

سارنگ وسان نے بتایا کہ اس سے قبل ملزم فصل میں چرنے والی ایک گائے کی بھی ٹانگ کاٹ چکا ہے۔ لیکن اونٹنی کی درد سے کراہتی ہوئی ویڈیو زیادہ وائرل ہوئی جس کی وجہ سے شہری اس حرکت پر سخت غصے اور ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔

کیس میں گرفتار کیے گئے افراد میں سے ایک شخص کے بھائی محرم شر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس نے ان کے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا الزام قبول نہ کرنے کی وجہ سے پولیس ان کے دیگر رشتے داروں کو بھی گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

مقامی صحافی یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ واقعے میں ملوث اصل ملزم کو بچانے کے لیے پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر میں جائے وقوعہ تبدیل کر دیا ہے۔

اونٹنی کے مالک کا مقدمے میں مدعی بننے سے انکار

دوسری جانب اونٹنی کے مالک اور ضلع خیرپور کے رہائشی محمد بخش بیھن کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے جو اس واقعے میں ملوث ہیں۔

ان کے بقول اسی لیے وہ ایف آئی آر میں مدعی نہیں بننا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی اونٹنی چرتے ہوئے دور تک نکل گئی تھی۔ اس لیے اس بارے میں ان کو زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق جس جگہ اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ پیش آیا ہے وہ ایک با اثر زمین دار کی زمین ہے۔

پولیس کی کارروائی کے حوالے سے الزامات کی تردید

ادھر ترجمان سانگھڑ پولیس نے اس حوالے سے عائد الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ واقعے کی منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تفتیش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔

ان کے بقول اس حوالے سے ابھی تفتیش جاری ہے جب کہ واقعے کے اگلے روز ہی سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔

جانوروں پر تشدد کی کیا سزا ہے؟

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے فائق علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ملک میں جانوروں کو نقصان پہنچانا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اس کے لیے پاکستان پینل کوڈ اور پریوینشن آف کرولٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پولیس کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔

ان کے بقول درست تفتیش کر کے واقعے کے ذمہ دار کے خلاف ٹھوس ثبوت جمع کرنے ہوں گے تاکہ عدالت کے پاس ملزم کو سزا دینے کے لیے مواد ہو۔

فائق علی کا کہنا ہے کہ جانوروں پر بے رحمی سے تشدد یا انہیں مستقل معذوری کا شکار کرنے کی سزا انتہائی کم ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ قید دو سال اور جرمانہ محض ایک ہزار روپے ہے۔

ان کے مطابق اگر کسی شخص نے اس جرم کا ارتکاب پہلی بار کیا ہے تو اس پر صرف 500 روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا یا چھ ماہ قید یا عدالت دونوں سزائیں بھی دے سکتی ہے۔

واقعے کے نفسیاتی عوامل

لیکن ماہرین نفسیات کے مطابق جانوروں پر اس قدر تشدد کہ اس سے وہ مستقل معذور ہو جائیں تو اس کا تعلق غصے اور متشدد ذہنیت سے ہے۔

کراچی میں مقیم ماہر نفسیات عالم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ پر تشدد عمل ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس شخص یا پولیس کے بقول کچھ افراد نے یہ عمل کیا ہے کہ وہ کس قدر سنگ دل اور غصے میں بھرے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جانور اگر چرتے ہوئے کسی دوسرے کی زمین پر چلا جائے تو اس متعلق بھی قوانین موجود ہیں۔ لیکن اس واقعے کے سامنے آنے والے شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانونی راستہ اپنانے کی بجائے انتقام کا راستہ اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ قانون کے اطلاق کا ہے اور اس کی مثالیں ہم دور دراز دیہی تو کیا شہری علاقوں میں بھی خوب دیکھ سکتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں افراتفری اور اس طرح کے واقعات عام ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG