سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل بن احمد الجبیر کا اتوار کو شروع ہونے والا دورہ پاکستان عین وقت پر موخر ہو گیا ہے اور اب یہ دورہ جمعرات کو شروع ہو گا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ دورہ سعودی عرب کی درخواست پر ملتوی کیا گیا لیکن اس کی مزید تفصیل یا وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ دورہ پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے اور اس میں گزشتہ ماہ سعودی عرب کی طرف سے تشکیل دیے گئے 34 ملکی فوجی اتحاد سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس فوجی اتحاد میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں جب کہ پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس اتحاد کے قیام کو خوش آئند قرار دیتا ہے لیکن اس میں اپنے کردار سے متعلق ابھی تفصیلات پر بات چیت کی جا رہی ہے۔
بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ عادل الجبیر کا یہ دورہ سعودی عرب میں ہفتہ کو ایک معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت 47 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث ملتوی کیا گیا ہے۔
شیخ نمر کی موت پر سعودی عرب کے روایتی حریف ایران کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے جب کہ خطے کی دیگر شیعہ آبادی نے بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے سعودی شاہی خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں جب کہ وزیراعظم نواز شریف کا سعودی شاہی خاندان کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلق بھی بہت گہرا ہے۔ دوسری طرف ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور حالیہ برسوں میں ان کے تعلقات میں بھی بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔
گزشتہ سال یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی زیر قیادت اتحادی فورسز کی کارروائیوں میں ریاض نے اسلام آباد سے شریک ہونے کا کہا تھا لیکن پاکستان نے اس میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تنازع کے سفارتی حل میں کردار ادا کرنے کو ترجیح دی تھی۔
شیخ نمر کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ایک بار پھر پاکستان کے لیے مشکل پیدا کر سکتی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی ایک فریق کی طرفداری کرے۔
"یہ دونوں (ایران، سعودی عرب) اس پوزیشن میں نہیں کہ براہ راست ایک دوسرے کے خلاف کچھ کر سکیں۔۔۔پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی کی طرف داری کرے اور سعودی عرب کے معاملے پر اس کا موقف رہا ہے کہ اگر براہ راست ان کی سرزمین کو خطرہ ہو گا تو پاکستان اس میں مدد کرے گا اور ابھی میرا نہیں خیال کہ ایران براہ راست کوئی خطرہ ہے۔"
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے قانون ساز اور خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ فریقین کو تحمل پر کار بند رکھنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرے۔
"یہ خطے کے استحکام کے لیے اچھا شگون نہیں ہے اور پاکستان کو اور دوسرے دوست ممالک کو چاہیئے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کریں۔۔۔پاکستان ثالثی میں اس وقت داخل ہو سکتا ہے جب دونوں فریقین کی طرف سے کوئی رضا مندی ہو، لیکن ہمیں اپنے سفارتی ذرائع استعمال کرنے چاہیئں اور دونوں ممالک کو مشورہ دینا چاہیئے کہ وہ تحمل سے کام لیں۔"
امریکہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ شیخ نمر کی سزائے موت پر عملدرآمد سے خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو گا جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس صورتحال میں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔