سعودی عرب میں شاہی فرمان کے مطابق ملک سے باہر کسی تنازع میں لڑنے والے سعودی شہریوں کو تین سے بیس سال تک کی سزا دی جا سکے گی۔
فرمان میں کہا گیا کہ ملک کے اندر یا باہر دہشت گرد تنظمیوں میں شمولیت یا اُن کی مدد کرنے والے سعودی شہریوں کو پانچ سے تیس سال تک سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بظاہر یہ حکم نامہ اُن کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد شام جا کر صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے سعودی شہریوں کو باز رکھنا ہے۔
سعودی وزارت داخلہ کے اندازوں کے مطابق اُس کے لگ بھگ 1200 شہری شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لیے گئے ہیں۔
اس پابندی کا اطلاق ممکنہ طور پر حال ہی میں دہشت گرد گروپ قرار دی گئی مصر کی جماعت ’اخوان المسلمین‘ کے علاوہ لبنان میں ’حزب اللہ‘ میں شمولیت یا اُن کی حمایت پر بھی ہو گا۔
سعودی حکام کے مطابق نئے شاہی فرمان کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔
انسانی حقوق کی بعض بین الاقوامی تنظمیوں نے کہا کہ نئے سعودی حکم نامے میں دہشت گردی کی واضح تعریف نہیں کی گئی اس لیے ممکنہ طور پر اس کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فرمان میں کہا گیا کہ ملک کے اندر یا باہر دہشت گرد تنظمیوں میں شمولیت یا اُن کی مدد کرنے والے سعودی شہریوں کو پانچ سے تیس سال تک سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بظاہر یہ حکم نامہ اُن کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد شام جا کر صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے سعودی شہریوں کو باز رکھنا ہے۔
سعودی وزارت داخلہ کے اندازوں کے مطابق اُس کے لگ بھگ 1200 شہری شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لیے گئے ہیں۔
اس پابندی کا اطلاق ممکنہ طور پر حال ہی میں دہشت گرد گروپ قرار دی گئی مصر کی جماعت ’اخوان المسلمین‘ کے علاوہ لبنان میں ’حزب اللہ‘ میں شمولیت یا اُن کی حمایت پر بھی ہو گا۔
سعودی حکام کے مطابق نئے شاہی فرمان کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔
انسانی حقوق کی بعض بین الاقوامی تنظمیوں نے کہا کہ نئے سعودی حکم نامے میں دہشت گردی کی واضح تعریف نہیں کی گئی اس لیے ممکنہ طور پر اس کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔