سعودی عرب نے پیر کو ریاض میں ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد دارالحکومت میں تیز رفتار ترقی کو فروغ دینا اور ساتھ ہی ساتھ ایوی ایشن کو جدید بنانے کے شاہی مملکت کے عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق نئے ہوائی اڈے کا نام 86 سالہ شاہ سلمان کے نام پر رکھا جائے گا۔ یہ اعلان ان کے 37 بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے کیا ہے جو اس وقت عملی طور پر سعودی عرب کے حکمران ہیں۔
اس ایئرپورٹ کو اس انداز میں تعمیر کیا جائے گا کہ سن 2030 تک یہ سالانہ 12 کروڑ مسافروں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو گا اور 2050 تک یہ ایئر پو ٹ 18 کروڑ مسافروں کو آمد و رفت کی سہولت فراہم کر سکے گا۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے کا منصوبہ سعودی عرب کے اس تصور کے مطابق ہے کہ ریاض کو دنیا کے دس بڑے شہروں کی معیشتوں میں شامل کیا جائے اور 2030 تک ریاض کی آبادی ڈیڑھ سے دو کروڑ تک پہنچنے اور انہیں شہری سہولیات مہیا کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
اس وقت ریاض کی آبادی 80 لاکھ سے بھی کم ہے۔
سعودی عرب کے ہوا بازی کے اہداف، شہزادہ محمد کی "وژن 2030"نامی وسیع اصلاحات کا حصہ ہیں، جن میں اس دہائی کے آخر تک سفر کی گنجائش تین گنا بڑھا کر سالانہ ٹریفک کو 33 کروڑ مسافروں تک لانا ہے۔
اس وژن میں2030 تک اس شعبے میں100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا، ایک نئی قومی ایئر لائن قائم کرنا اور ہر سال 50 لاکھ ٹن سامان کی نقل و حمل بھی شامل ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ نئے ہوائی اڈے سے دوہزار پچاس تک پینتیس لاکھ ٹن کارگو کو پروسیس کرنے کی توقع ہے۔
ایس پی اے کا کہنا ہے کہ یہ ایئر پورٹ عالمی لاجسٹک کے ایک مرکز کے طور پر ریاض کی پوزیشن کو فروغ دے گا، نقل و حمل، تجارت اور سیاحت میں پیش رفت کرے گا، اور مشرق کو مغرب سے ملانے والے ایک اہم رابطےکے طور پر کام کرے گا۔
اعلان میں ، اس منصوبے کی لاگت کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں جسے 57 مربع کلومیٹر کے احاطے پر تعمیر کیا جائیگا۔
اس وقت سعودی عرب کا مصروف ترین بین الاقوامی ہوائی اڈہ بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں قائم ہے، جو لاکھوں مسلمانوں کے حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ ایئرپورٹ گیٹ وے ٹو مکہ کے نام سے بھی موسوم ہے۔
سعودی حکام اب وسطی سعودی عرب میں واقع ریاض کو متحدہ عرب امارات کے معاشی اہمیت کے شہر دبئی کے مقابل لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے حاصل کی گئی ہیں۔