ایرانی وزارت خارجہ نے پیر کو کہا ہےکہ تہران اقوام متحدہ کی مقرر کردہ اس نئی غیرجانبدار تحقیقات کو مسترد کردے گاجو حکومت مخالف مظاہرووں کے خلاف جبر کے بارے میں ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہےجب مظاہروں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
وزارت کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ "ایران اقوام متحدہ کی حقوق کونسل کی تشکیل کردہ سیاسی کمیٹی کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرے گا۔"
اقوام متحدہ کی حقوق کی کونسل نے جمعرات کو مظاہروں کے خلاف ایران کے ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کی تحقیقات کےحق میں ووٹ دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے کمشنر وولکر ترک نے اس سے قبل ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 16 ستمبر کو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا "غیر متناسب" استعمال بند کرے۔
خبر رساں ایجنسی HRANAنے کہا کہ ملک گیر بدامنی کے دو ماہ سے زائد عرصے میں 26 نومبر تک 450 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 63 بچے بھی شامل ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے 60 ارکان ہلاک ہوئے، اور 18,173 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔
زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے خامنہ ای کی تصاویر کو نذر آتش کیا ہے اور ایران کی شیعہ مسلم مذہبی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے،مظاہرین نے خاص طور پر خواتین کے حقوق پر توجہ مرکوز کی ہے - امینی کو اخلاقی پولیس نے ایران کے اسلامی لباس کوڈ کے تحت نامناسب لباس پہننے پر حراست میں لیا تھا - مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی معزولی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
1979 کے اسلامی انقلاب میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، یہ بدامنی ایران کے علما کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئی ہے، باوجود اس کے کہ حکام نے بڑے مظاہروں کے پچھلے دور کو کچل دیا تھا۔
ایران نے بدامنی کا ذمہ دار غیر ملکی دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کو ٹھہرایا ہے۔
کنانی نے پیر کو کہا کہ ایران کے پاس ایسےثبوت ہیں کہ مغربی ممالک ایران کو اپنی لپیٹ میں لینے والے ان مظاہروں میں ملوث تھے ۔
انہوں نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ہمارے پاس مخصوص معلومات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ احتجاج میں امریکہ، مغربی ممالک اور کچھ امریکی اتحادیوں کا کردار رہا ہے۔
ایران نے مظاہرین کی ہلاکتوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی ہے، لیکن نائب وزیر خارجہ، علی باغیری نے کہا ہے کہ بدامنی میں تقریباً 50 پولیس اہل کار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جو کہ سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی پہلی سرکاری طور پر بتائی جانے والی تعداد ہے۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تعداد میں دیگر سیکیورٹی فورسز جیسے کہ پاسداران انقلاب کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
یہ رپورٹ خبر رساں ایجنسی راٗئٹرز کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔