پاکستان کی سپریم کورٹ نے مختلف سرکاری اداروں سے برطرف کیے گئے 16 ہزار سے زائد ملازمین کی نظرِ ثانی کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے انہیں از خود نوٹس کے تحت بحال کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو برطرف ملازمین بحالی کیس کا محفوظ شدہ مختصر فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ چار ایک کے تناسب سے سنایا گیا۔ بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں نظرِ ثانی کی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمانی نظام میں مقننہ سپریم ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ملازمین کو ان ہی تاریخوں سے بحال کیا جا رہا ہے جب انہیں بر طرف کیا گیا تھا۔ جب کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ملازمین کی بحالی کا حکم دیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ کے ابتدائی فیصلے میں گریڈ سات سے نیچے کے ملازمین کو تو فوری طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے البتہ گریڈ سات سے گریڈ 17 کے درمیان ملازمین کو ٹیسٹ دینا ہو گا اس کے بعد ان کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ ان ملازمین کی بحالی کے لیے بنایا گیا قانون غیر قانونی ہے۔
مختصر فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری امور میں بے ضابطگی اور بد عنوانی پر نکالنے گئے ملازمین اس فیصلے کے تحت بحال نہیں ہوں گے۔
برطرف ملازمین کی ایک بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر بھی موجود تھی۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملازمین گزشتہ دو روز سے عدالت کے باہر موجود ہیں۔
سرکاری ملازمین خوشی سے نہال
سپریم کورٹ کے فیصلے سے بحال ہونے والے سرکاری ملازم علی عباس نے کہا کہ یہ سب کے لیے خوشی کا دن ہے۔ اگر سرکاری ملازمین کے لیے یہ فیصلہ نہ آتا تو کہا جاتا کہ امیروں کے لیے قانون کچھ اور، اور غریبوں کے لیے قانون اور ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے یہ پیغام دیا ہے کہ قانون تمام پاکستانیوں کے لیے ایک ہے۔ آج سرکاری ملازمین کو ان کا حق ملا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین ماہ میں سرکاری ملازمین نے پر امن رہتے ہوئے احتجاج کیا اور قانون کی حکمرانی پر عمل ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ساڑھے 16 ہزار کے قریب ملازمین اس فیصلے کے تحت بحال ہوئے ہیں۔ جس سرکاری حکم نامے کے تحت ملازمین برطرف ہوئے تھے اس کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور اب یہ تمام ملازمین بحال ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد کے سرکاری اسکول کی استاد غزالہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غریب ملازمین اس صورتِ حال کی وجہ سے بہت پریشان تھے اور اس دوران 40 کے قریب سرکاری ملازم دکھ اور پریشانی کے عالم میں فوت ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوا کہ اس ملک میں غریب لوگوں کی بات بھی سنی جا سکتی ہے۔ اگر فیصلہ ملازمین کے حق میں نہ آتا تو معاشی مسائل کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ملازمین کی بحالی سے متعلق فیصلہ خوش آئند ہے۔
انہون نے کہا کہ ملازمین خاص طور پر چھوٹے گریڈ کے ملازمین سخت مشکلات سے دوچار تھے۔ ملازمین نے انصاف کے حصول کے لیے وفاقی دارالحکومت میں سخت سردی کے باوجود احتجاج جاری رکھا۔
برطرف ہونے والے ملازمین کون تھے؟
واضح رہے کہ بر طرف ہونے والے ملازمین کا کہنا تھا کہ وہ 96-1995 کے دوران سرکاری اداروں کا حصہ بنے تھے اس وقت ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت تھی۔
اس دوران کئی اداروں، جن میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) ، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)، اسٹیٹ لائف اور دیگر وفاقی محکمے شامل تھے، میں ایسی ہی بھرتیاں ہوئیں۔
ان کے مطابق حکومت جانے اور مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان ملازمین کو، جو پی پی پی کے دور میں مختلف اداروں میں بھرتی ہوئے تھے، سیاسی بھرتیاں قرار دیتے ہوئے نوکریوں سے برخاست کر دیا تھا۔
ملازمین کا دعویٰ تھا کہ ان کو مروجہ طریقۂ کار کے مطابق نوکریاں دی گئی تھیں۔ ان ملازمین نے سروسز ٹریبونل اور عدالتوں کا رُخ کیا البتہ بیشتر نوکریوں پر بحال نہ ہو سکے۔ ایس ایس جی سی میں کچھ ملازمین کو عدالتی احکامات پر نوکریوں پر دوبارہ رکھ لیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں دوبارہ حکومت قائم ہونے پر ایک بار ان تمام ملازمین کو بحال کرنے کے لیے 2009 میں صدارتی آرڈیننس لایا گیا اور ایسے ملازمین کو تین سال کی تنخواہیں بھی ادا کی گئیں۔
دسمبر 2010 میں اس آرڈیننس کو پارلیمان سے منظور کرا کر باقاعدہ قانون کی شکل بھی دی گئی جسے ’سیکڈ ایمپلائز ری انسٹیٹمنٹ ایکٹ‘ (سیرا) کا نام دیا گیا۔
ایسے ملازمین کو اشتہار دے کر نوکریوں پر واپس آنے کا کہا گیا اور مستقل ملازمین کو ان کے برخاست کرنے کے وقت کے گریڈ سے ایک گریڈ اوپر کی ترقی بھی دی گئی۔ جب کہ غیر مستقل ملازمین کو اسی گریڈ پر دوبارہ سے نوکریوں پر بحال کر دیا گیا۔
اس قانون کے تحت تقریباََ 16 ہزار سے زائد ملازمین نوکریوں پر بحال ہوئے۔ قانون پر عمل درآمد اور اس میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے نظر ثانی بورڈ تشکیل دیا گیا جو اس وقت کے وفاقی وزیر خورشید شاہ کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔
مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب انٹیلی جنس بیورو کے بعض ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ بحال کیے گئے ایک ہزار ملازمین کی وجہ سے پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کی سنیارٹی متاثر ہو رہی ہے۔ جب کہ کچھ مزید اداروں کی جانب سے قانون پر پوری طرح عمل درآمد نہ کرنے پر بحال ملازمین نے بھی عدالت کا رخ کیا۔
ہائی کورٹ کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا جس نے لمبی سماعتوں کے بعد سال 2019 میں اس پر فیصلہ محفوظ کیا جو 20 ماہ بعد رواں سال اگست میں سنایا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کیا تھا؟
عدالت نے اس قانون کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ برطرف ملازمین کو پچھلی تاریخوں میں سنیارٹی دی گئی۔ جو کہ آئین کے آرٹیکل چار کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون منظور کر کے مقننہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور ایسے لوگوں کو ناجائز فائدہ دیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ برطرف ملازمین کو سروسز ٹربیونل ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت اپنی برطرفی چیلنج کرنے کا بھرپور حق تھا جو انہوں نے مقررہ وقت پر استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے اب یہ معاملہ ماضی کا قصہ بن چکا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کو تمام فوائد فوری طور پر بند کیے جاتے ہیں۔ جب کہ اس ضمن میں دیے گئے تین سال کے بقایاجات بھی نکالے گئے ملازمین کو واپس دینے ہوں گے۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں ملازمین کو برخاست کرنے کے خطوط دیے گئے۔ ان میں سے بیشتر ملازمین 50 سال سے اوپر کی عمر کے ہیں۔
ان ملازمین نے ایک جانب عدالتی فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے درخواستیں دائر کیں تو دوسری جانب وہ کئی شہروں میں احتجاج بھی کر رہے ہیں۔