کووڈ نائنٹین نے سائنس دانوں کو دوہرے چیلنج سے نبرد آزما کر دیا ہے۔ ایک طرف تو وہ انتھک کوششوں میں مصروف ہیں کہ کیسے اس موزی مرض پر قابو پایا جائے تو دوسری طرف انہیں سائنس اور سائنس دانوں کے کام کرنے کے محرکات کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا سامناہے۔
اس صورت حال میں سائنس دانوں کی سوچ اور کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں سائنس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے سائنس دانوں سے خیالات معلوم کیے۔
ڈاکٹر بارون ماتھیا جو کہ نیویارک کی کولیمبیا یونیورسٹی میں وباوں کے متعلق تعلیم کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اس بات کو بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سائنس دانوں کے لیے یہ ایک حوصلہ شکن بات ہے کہ ان پر شک کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں۔
"یہ پریشان کن اور دل توڑنے والی بات ہے کہ سائنس دانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔حالانکہ ہم تو کووڈ نائنٹین کے خلاف جنگ میں بغیر کسی معاوضے کے مدد کر رہیں ہیں"۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار امریکی سوسائٹی برائے متعدی امراض کے ترجمان ڈاکٹر آرون گلاٹ کے ردعمل میں نظر آتا ہے۔
وہ اس بات کو شرمناک قرار دیتے ہیں کہ سائنس کے علاوہ کو ئی اور شے پالیسی سازی کو وضع کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اس بات سے قطع نظر کہ آپ ری پبلیکن یا ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کی پالیسی اور فیصلے سائنس ہی پر مبنی ہونا چاہیئں'۔
اس وقت امریکہ میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد افراد کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا سے متاثر ہو چکے ہیں اور دو لاکھ 47 ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ جانز پاپکنز یونیورسٹی کے مطابق یہ اعداد و شمار امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بناتے ہیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے صحت عامہ کے سکول کے ڈین ڈاکٹر بورس لشنیاک کہتے ہیں کہ وہ اس مرض کے حوالے سے سائنس پر اٹھائے گئے سوالات پر ششدر رہ گئے۔
وہ ان باتوں کو سائنس پر حملہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ حقائق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
وہ کہتے ہیں:
"سائنس کو واپس لانے کی ضرورت ہے اور فیصلہ سازی کے عمل میں سائنس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے"۔