شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں رُکن ممالک نے زور دیا ہے کہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے بھی دہشت گردی کے معاملے پر نام لیے بغیر ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منگل کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کا افتتاح کیا۔ اس وقت بھارت ایس سی او کا صدر ہے۔ مودی نے اجلاس سے ورچوئل خطاب میں دہشت گردی کو علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس کے خاتمے کے لیے مل کر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اُنہوں نے اجلاس کی میزبانی کرتے ہوئے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو ، اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔
اُنہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ ملکوں نے سرحد پار کی دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔
اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کو ایسے ملکوں کی مذمت میں جھجک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے بقول دہشت گردی کے سلسلے میں دہرا پیمانہ نہیں ہونا چاہیے۔
مودی نے کہا کہ دہشت گردی کی مالی اعانت سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انتہاپسندی کو روکنے کے لیے مزید سرگرم کوشش کی جانی چاہیے۔
مودی نے افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے حالات ہماری سلامتی پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں جس پر ایس سی او کے دیگر ملکوں کی مانند بھارت کو بھی تشویش ہے۔
اُنہوں نے افغان عوام کی انسانی امداد کی ضرورت پر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ وہاں ایک جامع اور نمائندہ حکومت قائم ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم نے افغانستان میں منشیات کی تجارت کے خلاف اقدامات پر زور دیا اور کہا کہ وہاں کی خواتین اور بچوں کے تحفظ اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ دو عشروں کے دوران افغانستان کی تعمیر و ترقی میں تعاون کیا ہے۔ 2021 کے بعد وہاں کے تبدیل شدہ حالات میں بھی اس نے انسانی امداد بھیجی ہے۔
اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین ہمسایہ ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنے یا دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم مودی نے ایران کے بحیثیت رکن ایس سی او میں شامل ہونے پر خوشی ظاہر کی اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور عوام کو مبارکباد پیش کی۔ ان کے بقول ایس سی او میں ایران کے شامل ہونے کے بعد ہم چاہ بہار بندرگاہ کے بہتر استعمال کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ یوریشیا خطے سے بھارت کے ہزاروں سال پرانے رشتے ہیں اور ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ ایس سی او گزشتہ دو عشروں میں پورے یوریشیا خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے ایک اہم پلیٹ فارم کی حیثیت سے ابھری ہے۔
'پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں'
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ورچوئل خطاب میں کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ خطے میں پائیدار امن تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔
اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے دہشت گردی کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
شہباز شریف نے بھی دہشت گردی کی تمام اقسام کی مذمت کی اور کہا کہ ریاستی دہشت گردی میں معصوم لوگوں کا قتل انتہائی قابلِ مذمت ہے۔
مبصرین کے مطابق نریندر مودی نے جہاں نام لیے بغیر پاکستان کی جانب اشارہ کیا وہیں شہباز شریف نے بھی نام لیے بغیر بھارت کی جانب اشارہ کیا۔
شہباز شریف نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے کہا کہ عالمی برادری کو وہاں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ عالمی امن کے لیے لوگوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
یاد رہے کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے الزام کی تردید کرتا ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کو معیشت اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ رابطے جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ رابطوں کے فروغ کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول سی پیک معاشی خوشحالی، امن اور استحکام میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔
شہباز شریف نے بھی افغانستان میں انسانی امداد پر زور دیا اور کہا کہ پر امن اور مستحکم افغانستان خطے میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں ایس سی او کا افغانستان رابطہ گروپ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس ورچوئل اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بھی شرکت کر رہے ہیں۔ روس میں جون میں ایک نجی ملیشیا ’واگنر‘ کی بغاوت کے بعد پوٹن کا کسی عالمی تقریب میں شرکت کا یہ پہلا موقع ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ نِنگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شی جن پنگ دیگر رہنماؤں کے ساتھ اجلاس سے اہم خطاب کریں گے جس میں وہ مستقبل میں تنظیم کے فروغ کے سلسلے میں تجاویز پیش کریں گے۔
بھارت ایسے وقت پر ایس سی او کی صدارت کر رہا ہے جب چین کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع چل رہا ہے اور متعدد ادوار کے مذاکرات کے باوجود یہ مسئلہ ہنوز حل نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت، چین، روس، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان ایس سی او کے رکن ہیں۔ اب ایران بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ بھارت 2005 میں اس کا مشاہد رکن بنا اور 2017 میں مستقل رکن بنا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ عالمی تناظر میں ایس سی او کے اس اجلاس کی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور چین کے صدر شی جن پنگ کی شرکت نے بھی اس کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ جب کہ ایران کی رکنیت تنظیم میں ایک نیا اضافہ ہے۔
سابق سفارت کار اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ایس سی او میں روس کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ اس سے قبل سمرقند میں منعقدہ ایس سی او اجلاس میں وزیر اعظم مودی نے ان سے جنگ بندی کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ یہ وقت جنگ کا نہیں ہے، جسے پوری دنیا میں سراہا گیا تھا۔
ان کے بقول اجلاس کے دوران ولادیمیر پوٹن اس بات کا احساس کریں گے کہ وسط ایشیائی ملکوں کے لیے بھی روس کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں یہ صورت حال ان کو ایک پیغام دے گی کہ جتنی جلد ممکن ہو جنگ بند کی جائے۔
سجن ہار کے خیال میں یہ اجلاس وزیر اعظم مودی کے کامیاب امریکی دورے کے بعد ہو رہا ہے۔ بھارت امریکہ رشتے کافی آگے بڑھے ہیں۔ بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے رشتوں اور ایس سی او کے رکن کی حیثیت سے اپنی اسٹریٹجک خود مختاری کی بات کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اجلاس کے دوران یوکرین جنگ کا بھی معاملہ زیر بحث آسکتا ہے۔ تاہم سابقہ اجلاسوں کی مانند اس بار بھی اس کی امید کم ہے کہ اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے یا پیش رفت ہو سکے۔