رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: معمر قذافی کی تلاش جاری


امریکی اخبارات سے: معمر قذافی کی تلاش جاری
امریکی اخبارات سے: معمر قذافی کی تلاش جاری

’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ معمر قذافی کی تلاش جاری ہے لیکن اُن کی 42سالہ ظالمانہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

لیبیا کے عوام نے قذافی کا تختہ الٹنے کے لیے جانوں کا نذرانہ دیا جبکہ NATOکے فضائی حملوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔مارچ میں اِن فضائی حملوں نے قذافی کی فوجوں کو بن غازی پر دھاوا بولنے اور اُس کے شہریوں کا قتلِ عام کرنے سے باز رکھا۔ نیٹو کی کارروائی نے قذافی کا ’فائر پاور‘ کمزور کردیا جِس سے باغیوں کو منظم ہونے اور تربیت حاصل کرنے کا موقع مل گیا اور قذافی کے چمچوں نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔

چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ مغربی اتحادیوں، خاص طور پر برطانوی اور فرانسسی فوجوں کے لیے جن کی امریکہ نے مدد کی، یہ موقع باعثِ افتخار ہے۔ جن لوگوں کے لیے یہ فخر کی بات ہے اُن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور فرانس کے صدر نکولس سارکوزی اور صدر براک اوباما ہیں جنھوں نے اِن لوگوں کو نظر انداز کردیا جن کا دعویٰ تھا کہ لیبیا ایک دلدل ہے اور وہاں لڑائی لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اِس کے ساتھ ساتھ اخبار کہتا ہے کہ چھ ماہ کی اس لڑائی نے جن سنگین مسائل کو آشکارہ کیا ہے اُن کے وجود سے انکار کرنا بھی حماقت ہوگی۔

اخبار کہتا ہےکہ برطانیہ اور فرانس کو چھوڑ کر باقی یورپی ممالک کی فوجیں محاذ جنگ کو چلانے اور رسل ر سائل میں ہونے والی ترقی میں پیچھے رہ گئی ہیں، اور اس طرح وہ افغانستان سے لے کر لیبیا تک مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنے کے نہ تو خواہشمند ہیں اور نہ اس کے لیے تیار ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ کئی عشروں سے یورپی ممالک ، امریکی محکمہٴ دفاع پینٹگان پر اُن صلاحیتیوں کے لیے تکیہ کرتے آئے ہیں جو وہ خود فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ لیکن، پینٹگان پر اب کفایت کے لیے زبردست دباؤ ہے اس لیے اب وہ اپنے اتحادیوں کی یہ مانگ پوری نہیں کرسکتا۔

اخبار کہتا ہے کہ یورپی لیڈروں کو اپنے سے یہ بنیادی سوال کرنا چاہیئے کہ اگر اُن کے لیے قذافی کی پھٹیچر فوج سے دو دو ہاتھ کرنا اتنا مشکل ثابت ہوا ہے تو پھر ایک زور آور دشمن سے وہ کیونکر لڑ سکیں گے۔

’شکاگو ٹربیون‘ کہتا ہے کہ ابھی چند ہی ماہ پہلے کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن اور اُن کے اپریشنز چیف عطیہ عبد الرحمن اِس بات پر غور کر رہے تھے کہ امریکہ کے خلاف القاعدہ کی جنگ کیونکر جاری رکھی جائے، خاص طور پر 9/11کی برسی کے موقع پر۔

اگر ایسا ہوجاتا تو یہ اس بات کا تکلیف دِہ ثبوت ہوتا کہ اُن کے پاس امریکیوں کو تباہ کرنے یا خوفزدہ کرنے کی صلاحیت اب بھی موجود ہے۔ لیکن، دونوں میں سے کسی کو بھی یہ دن دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

بن لادن مئی کے مہینے میں ایک حملے میں امریکی بحریہ کے Seals کے ہاتھوں ہلاک ہوا اور پچھلے ہفتے پاکستان ہی میں ایک ڈرون حملے میں عطیہ عبد الرحمٰن کو بھی ٹھکانے لگادیا گیا۔ عبد الرحمٰن لیبیا کا باشندہ تھا اور آتشیں اسلحے کا ماہر تھا۔

دس سال قبل جب نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاورز مین بوس ہوگئے تھے تو اُس کے بعد سے القاعدہ کسی بھی وقت اتنی غیر مؤثر ، اتنی زخم خوردہ اور اتنی محصور تنظیم نہیں لگ رہی جتنی کہ اس وقت۔

اخبار کہتا ہےکہ 9/11تک القاعدہ کی تنظیم اگر پھلتی پھولتی رہی تو اس کی وجہ ہماری سہل انگاری تھی لیکن اب ہمارا عزم ِصمیم وہ واحد وجہ ہے کہ یہ تنظیم برے حالوں میں ہے اور زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

اپیل کمپیوٹر کمپنی سے سٹیو جابس کی چیف اگزیکٹو کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے فیصلے پر ’فلاڈیلفیا انکوائرر‘ اخبار کہتا ہے کہ ایک اعتبار سے جابس اس ملک کے ماضی اور مستقبل دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اُن کا موازنہ امریکی جدت طرازی کے بڑے بڑےجغادریوں سے کیا گیا ہے، مثلاً الیگزانڈر گراہم بیل ، ٹامس ایڈیسن، جارج واشنگٹن، کارور، ہنری فورڈ اور والٹ ڈِزنی۔

اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے پر وہ اپنے پیچھے ایک ایسی روایت چھوڑ کر جار رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ اس کے بہترین دن ابھی آنے والے ہیں اورجِن انقلابی مصنوعات کا سہرا ایپل کو جاتا ہے اُن iMac, iPhone, iPadچند نام ہیں جِنھیں صارفین میں اتنی زبردست مقبولیت حاصل رہی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG