|
پشاور — افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم کے سرحدی علاقے میں امن و امان اور ریاستی رِٹ کی بحالی کے لیے مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف اتوار سے کارروائی شروع کی گئی ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ آپریشن ضلع ہنگو کے قصبے ٹھل سے ملحقہ لوئر کرم کے بگن علاقے میں شروع کیا گیا ہے۔
کارروائی شروع ہوتے ہی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے بگن کے ارد گرد چار دیہات کو محاصرے میں لیا ہے اور اس کا دائرہ مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
کارروائی شروع ہونے سے قبل سرکاری طور پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق اتوار کی صبح پشاور میں خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کارروائی شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اعلی عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کی جا رہی ہے اور بگن کے چار دیہات کو محاصرے میں لینے کے علاوہ کرم کی اہم شاہراہ پاڑہ چنار روڈ پر فورسز نے پوزیشن سنبھال لی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن انٹیلی جینس اداروں کی نشاندہی پر مخصوص مقامات پر کیا جا رہا ہے اور بگن میں آپریشن کے لیے سیکیورٹی فورسز کو کرم پولیس کی معاونت بھی حاصل ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے اس آپریشن میں لوئر کرم کے تین مقامات بگن، مندوری اور چپھری کو کلئیر کیا جائے گا۔
اس کارروائی میں سیکیورٹی فورسز کی بکتر بند اور دیگر گاڑیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔
حکام کے کہنا ہے کہ جمعے کے روز ٹھل سے پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر نامعلوم افراد کے حملے کے بعد انتظامیہ نے بگن میں مقامی قبائل سے بات چیت شروع کی تھی۔ تاہم دو روزہ بات چیت میں پیش رفت نہیں ہوسکی جس کے بعد کاروائی ناگزیر ہوگئی تھی۔
جمعے کو ہونے والے حملے میں دو سیکیورٹی اہلکار اور چھ ڈرائیور ہلاک ہوگئے تھے جب کہ حکام نے سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں چھ مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق کرم کی صورتِ حال پر تفصیلی تبادلۂ خیال کے بعد شرپسند عناصر کے خلاف بلا تفریق سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ترجمان صوبائی حکومت خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ ریاست پُر امن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم عناصر کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عمل درآمد کرایا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے سکیورٹی فورسز موجود ہوں گی۔
ان کے بقول حکومت کو خدشہ ہے کہ امن پسند لوگوں کے درمیان کچھ شرپسند گھس گئے ہیں اور امن پسند لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے انہیں شرپسندوں سے الگ کرکے کارروائی کی جائے گی۔
ترجمان نے کہا کہ فورسز کی کارروائی سے متاثرہ علاقوں کے عوام کے لیے رہائش کے بہترین متبادل انتظامات کیے گئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ حکومت فریقین سے درخواست کرتی ہے کہ اپنے درمیان موجود شرپسندوں کی نشان دہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں۔
انہوں نے کہا کہ گرینڈ جرگے کے ذریعے پشتون روایات کے مطابق امن معاہدہ کیا گیا مگر کرم میں چند شرپسند عناصر نے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی۔
ان کے بقول انہی شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے اور یہی عناصر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور امدادی سامان کے قافلوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس سے قبل ہفتے کی شام کرم کے متحارب قبائلی فریقین کے درمیان امن معاہدہ کرنے والے گرینڈ امن جرگہ معاہدے کی بار بار خلاف ورزیوں پر حرکت میں آگیا۔
گرینڈ امن جرگے نے محصور عوام کے لیے راستے کھولنے کی غرض سے صدرمملکت، وزیرِاعظم اور آرمی چیف سمیت 14 ذمے دار حکام کو خطوط بھی لکھے ہیں۔
پاڑہ چنار پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرگہ ممبر اور سابق ایم این اے پیر حیدر شاہ نے کہا کہ کوہاٹ میں بڑی مشکل سے امن معاہدہ کیا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لیے گرینڈ جرگہ کے ارکان ضلع کرم آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مورچے مسمار کرنے سمیت دیگر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں اور متحارب قبائل کے آٹھ بنکرز مسمار کیے گئے ہیں۔
تاہم جرگہ ممبر کے بقول اس دوران صرف ایک فریق کی جانب سے لوئر کرم خارکلی، بگن، مندوری اوچت اور دیگر علاقوں میں بار بار خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
امن جرگے نے خط میں معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب علاقے کے لوگوں کے خلاف فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کی جان و مال محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔