پاکستان کے صوبے بلوچستان میں دو مختلف مقامات پر فوج اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک سات اہلکار ہلاک اور 13 دہشت گردوں کے مارے جانےکی اطلاعات ہیں۔
عسکریت پسندوں نے بدھ کی شام بلوچستان کے ضلع پنجگور اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملے کیے تھے جن کی ذمے داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے نوشکی میں مزید پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے جس کے بعد نوشکی میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔
آئی ایس پی آر نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا ہے کہ پنجگور میں اب تک چار دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ چار سے پانچ عسکریت پسند وں کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔
آئی ایس پی آر کے مطابق نوشکی میں عسکریت پسندوں سے لڑتے ہوئے ایک افسر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ پنجگور میں تین اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے دوران حملہ آوروں کےبھارت اور افغانستان میں موجود اپنے مددگاروں سے رابطےکا بھی انکشاف ہوا ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ضیا اللہ لانگو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجگور میں سات جب کہ نوشکی میں پانچ سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 12 سیکیورٹی اہل کار ان کارروائیوں کے دوران زخمی بھی ہوئے ہیں۔
جمعرات کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ چار دہشت گرد پنجگور بازار میں روپوش ہو گئے ہیں جن کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیشِ نظر بارڈر مینجمنٹ کمیٹی نے ایران کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضی زہری کے مطابق پنجگور کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں کرفیو لگا دیا ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ گھروں سے نکلنے سے گریز کریں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کے دوران فوج کی جوابی کارروائی کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم اپنی فوج کی پشت پر متحد اور یکجا کھڑی ہے۔
حملوں میں 100 سے زیادہ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان نے میڈیا کو بھیجی گئی ایک ای میل میں نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ تنظیم کی مجید بریگیڈ کی جانب سے کیے گئے حملوں میں فوج کے تقریباً 100 اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم حکام نے بی ایل اے کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کی۔
وزیرِ اعظم کا دورۂ چین اور بلوچستان میں حملے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کے دورۂ چین کے دوران اتنے بڑے حملوں کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا ہوسکتا ہے۔
حکام کو توقع ہے کہ اس دورے سے چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) پر کام کی رفتار تیز کرنے سے متعلق امور پر بھی بات ہو گی۔
بعض مبصرین کے خیال میں بلوچستان میں سرگرم مختلف علیحدگی پسند گروہ اپنے الحاق کو مؤثر ظاہر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر حملے کررہے ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران بلوچستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ 25اور 26جنوری کی درمیانی شب دہشت گردوں نے ضلع کیچ میں ایک چوکی پر حملہ کیا تھا جس میں 10 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو ئے تھے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق بلوچستان میں سال 2021 کے دوران 104 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 177 افراد ہلاک اور 344 زخمی ہوئے۔ حملوں کی یہ تعداد سال 2020 کے مقابلے میں 112 فی صد زیادہ تھی۔
رواں سال کے آغاز پر جنوری میں دہشت گردی کے 10 واقعات ہوئے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 23 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے۔
بلوچستان میں فروری کے پہلے تین دن تین حملے ہوئے ہیں جن میں نوشکی اور پنجگور کے دو بڑے حملے بھی شامل ہیں۔
بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم کے دورۂ چین کے دوران یہ حملہ خاصا تشویشناک ہے کیونکہ دہشت گرد اس حملے کے ذریعے دنیا کو یہ بتانے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ' بلوچستان کونسل فار پیس' سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر سعادت بلوچ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم کے دورہ چین کا اس حملے سے تعلق نہیں کیونکہ چین کو بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کا پہلے سے اندازہ ہے۔
حملوں میں اضافہ کی وجہ کیا ہے؟
حالیہ عرصہ میں ان حملوں میں اضافہ کے بارے میں ڈاکٹر سعادت بلوچ کا کہنا تھا کہ اس وقت سیکیورٹی فورسز کا ایک آپریشن جاری ہے اور ان لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ سیکیورٹی فورسز ان کے پیچھے آرہے ہیں۔ لہذا ان لوگوں نے اس سے قبل کے سیکیورٹی فورسز انہیں نشانہ بناتیں فورسز پر ہی حملہ کر دیا۔
ڈاکٹر سعادت کے مطابق اس وقت ان علیحدگی پسند تنظیموں کو بہت زیادہ فنڈنگ فراہم کی جا رہی ہے اور حالیہ دنوں میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے قبضہ سے جدید اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ان میں سے بعض اسلحہ ایسا بھی تھا کہ ان افراد کو وہ استعمال کرنا بھی نہیں آیا وگرنہ نقصان زیادہ بھی ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ علیحدگی پسند ہر چھ سے سات سال کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہیں کیونکہ ہر کچھ سالوں کے بعد یہ تنظیمیں تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے ان کا انضمام اور نئی تنظیم بنائی جاتی ہے۔
اُن کے بقول کچھ عرصہ قبل براس وغیرہ کے نام سے نئی تنظیمیں بنیں اور اب بھی نئی تنظیمیں ان میں شامل ہوکر یہ حملے کر رہی ہیں جس کا مقصد ان حملوں کے ذریعے نئی فنڈنگ اور نئی طاقت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
سینیٹر انوارالحق کاکڑ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے لیے جیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ مکمل طور پر ختم نہ ہوجائیں، وہ ریاست پاکستان پر کنٹرول نہیں کرسکتے۔سبوتاژ کرنے کی کارروائیاں کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ اب تک ان دہشت گردوں کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی۔
'ایران سرحد کے پاس ٹھکانے بدستور موجود ہیں'
سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے پاک ایران سرحد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایران کے ساتھ سرحدی باڑ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی جب یہ مکمل ہوگی تو فرق پڑے گا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ ایران کی طرف ان کے ٹھکانے موجود ہیں، ایک ہی برادری کے لوگ دونوں اطراف موجود ہیں جو دوسری طرف سے آنے والوں کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔
اُن کے بقول ایسی صورتِ حال میں باڑ کا کام مکمل ہونے سے صورتِ حال میں بہتری آئے گی لیکن یہ ایک مشکل علاقہ ہے جہاں پہاڑی سلسلوں میں یہ چند ایک افراد کے گروہ کی صورت میں چھپ کر رہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سعادت بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے بنیادی مسئلے پر کوئی کام نہیں کیا جاتا، فورسز وہاں پر ایک عرصہ سے آپریشن کر رہی ہیں لیکن اس آپریشن کے نتائج برآمد نہیں ہوتے کیونکہ آپریشن کرکے انہیں ختم کر دیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد نئے نوجوان ان کی جگہ سنبھال لیتے ہیں۔ لہذٰا جب تک بلوچستان سے متعلق مسائل کا حل نہیں نکلے گا اس وقت تک مسائل جاری رہیں گے۔
بلوچستان میں نئے فوجی آپریشن کے حوالے سے سعادت بلوچ کا کہنا تھا کہ آپریشن پچھلے 20سال سے جاری ہے، بلوچستان اسی عرصہ سے حالتِ جنگ میں ہے۔