رسائی کے لنکس

عوامی مقامات کو خواتین کے لیے کیسے محفوظ بنایا جائے؟


مریم رفیع، صحافی ہیں اور اپنے موٹر سائیکل پر شہر کے عوامی مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے روزگار کے فرائض انجام دیتی ہیں
مریم رفیع، صحافی ہیں اور اپنے موٹر سائیکل پر شہر کے عوامی مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے روزگار کے فرائض انجام دیتی ہیں

خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں مگر پبلک ٹرانسپورٹ ہو، پبلک پارکس یا دیگر پبلک مقامات ، زیادہ تر خواتین ایسی جگہوں پر تنہا جاتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہیں اور بھیڑ والی جگہوں سے اجتناب کرتی ہیں۔ اکثر پارکس ، میلوں اور چڑیا گھر وغیرہ میں خواتین، فیملیز اور بچوں کے لیے دن مخصوص کر دیے گئے ہیں۔

سترہ ستمبر 2021 کو 28 سالہ پرائمری اسکول ٹیچر سبینہ نساء لندن کے علاقے گرینج میں پیدل اپنی دوست سے ملنے جا رہی تھیں مگر وہ وہاں نہیں پہنچیں۔ اگلے روز قریب ہی جھاڑیوں سے ان کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔

اس واقعے نے برطانوی خواتین میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا اور اس حوالے سے غم و غصے کو مزید ہوا دی کیوں کہ لندن میں راہ چلتی خواتین کے ساتھ پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔

خواتین پارلیمنٹیرینز سے لے کر لندن کے میئر صادق خان نے لندن کی سڑکوں پر خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دو ٹوک مؤقف اپنایا اور خواتین کے خلاف نفرت اور پبلک مقامات پر ہونے والی ہراسانی کو نفرت پر مبنی جرم یا hate crime قراردیتے ہوئے نئی قانون سازی پر زور دیا۔

اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم، تشدد اور ہراساں کیے جانے کی بات کی جاتی ہے تو جواب یہی آتا ہے کہ ایسا تو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بظاہر منظم پدرسری نظام کے خاتمے کے باوجود ترقی یافتہ معاشرے انفرادی سطح پر اس مسئلے سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔

اس ہفتے وی او اے اردو کے ڈیجیٹل پروگرام 'ع مطابق' میں پبلک مقامات پر'ایو ٹیزنگ(Eve Teasing)' یا خواتین سے چھیڑ خانی ، انہیں ہراساں یا پریشان کرنے کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ یہ پروگرام ہر پیر کی رات پاکستان میں نو اور بھارت میں ساڑھے نو بجے،وائس آف امریکہ کے یوٹیوب چینل اور فیس بُک پیج پر دیکھا جاسکتا ہے۔

پبلک مقامات پر خواتین کو پریشان کیوں کیا جاتا ہے؟

لندن کی سڑکوں پر خواتین کو ہراساں یا پریشان کرنے کے بڑھتے واقعات کو خواتین کے خلاف نفرت کا اقدام قرار دیا گیا ہے۔

تاہم امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں فلسفہ کی استاد کیٹ مین صنف کی بنیاد پر برتے جانے والے تعصبانہ رویوں کے موضوع پر کتاب لکھ چکی ہیں۔ خواتین کے خلاف ایسے صنف کی بنیاد پر تعصبانہ رویوں کے لیے انگریزی زبان میں misogyny کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ کیٹ مین کے مطابق misogyny خواتین سے نفرت اور دشمنی کا اظہار نہیں ہے، بلکہ خواتین کو یہ باور کرانے کا نام ہے کہ وہ مردوں کی اس دنیا میں بے اختیار ہیں اور اگر وہ اسے چیلنج کریں گی تو سزا بھی بھگتنی پڑے گی۔

پروفیسر کیٹ مین کے مطابق یہ نظریہ ایسی خواتین کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اس نظریے کے تحت طے کیے گئے نظام کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہیں جب کہ ان خواتین کو سزا کا حق دار سمجھتا ہے جو اس اجارہ داری پر مبنی سوچ کو قبول نہیں کرتیں۔

اس نظریے کے تحت سڑکوں اور کھلی جگہوں پر چوں کہ روایتی طور پر مردوں کی اجارہ داری رہی ہے اس لیے یہاں پر اپنا حق جتانے والی عورتیں مضحکہ اڑانے یا سزا دیے جانے کی حق دار ہیں۔

خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں مگر پبلک ٹرانسپورٹ ہو، پبلک پارکس یا دیگر پبلک مقامات ، زیادہ تر خواتین ایسی جگہوں پر تنہا جاتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہیں اور بھیڑ والی جگہوں سے اجتناب کرتی ہیں۔ اکثر پارکس ، میلوں اور چڑیا گھر وغیرہ میں خواتین، فیملیز اور بچوں کے لیے دن مخصوص کر دیے گئے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کے دوران خواتین نا مناسب رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کے دوران خواتین نا مناسب رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔

خواتین کےحقوق کے سرگرم کارکنوں کےمطابق ملک میں پبلک مقامات پر خواتین کو پریشان کرنے ، انہیں چھیڑنے کے معاملے پر گویا معاشرے نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ آبادی کا اتنا بڑا حصہ غیر محفوظ ہے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کے لیے دن اور جگہیں مخصوص کرکے پچاس فی صد آبادی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔

جو خواتین کالج، یونیورسٹی دفاتر جانے کے لیے روز گھروں سے نکلتی ہیں اکثر اوقات سیٹیاں بجانے اور جملے کسے جانے، سواری میں لفٹ دینے کی پیشکشوں، بازاروں اور بسوں میں چھو کر گزر جانے کے واقعات کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہیں۔

خواتین کی اکثریت ایسے واقعات پر شکایت کرنے، آواز اٹھانے یا گھر والوں کو بتانے سے اس لیے گریز کرتی ہیں کہ گھر والے تماشہ بنائے جانے یا ان کو کوئی ضرر پہنچنے کے خدشے کے پیش نظر انہیں گھر بیٹھنے کا مشورہ دیں گے۔

اور معاشرہ؟ پروفیسر کیٹ مین کی misogyny کی تعریف کے مطابق معاشرہ کسی 'انہوںی' کے ہو جانے کی صورت میں قصوروار عورت کو ہی ٹھہراتا ہے کیوں کہ اس نےاسٹیٹس کو (status quo ) یعنی معاشرے کے عناصر کی طے شدہ ترکیب کو للکارنے کی کوشش کی تھی۔

-"اکیلے گھر سے نکلو گی تو یہی ہوگا۔

- "رات کے اس وقت گھر سے نکلنا ہی کیوں تھا؟"

-"ایسی بھیڑ والی جگہ پر جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟"

موٹر وے واقعے کے بعد لاہور شہر کے پولیس چیف کا یہ بیان ابھی سب کو یاد ہوگا جب انہوں نے استفسار کیا کہ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون رات گئے سفر کیوں کر رہی تھیں؟

ایسے بیانات کو بعد میں پھر کتنا ہی سنبھالنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے مگر یہ بیانات معاشرے کی عمومی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

سڑکوں اور گلیوں میں چھوٹے بچے بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی تشدد کے واقعات، گھریلو تشدد کے جرائم، سر پر دوپٹہ اوڑھے حتیٰ کہ حجاب میں گزرتی خواتین کے ساتھ تواتر کے ساتھ پیش آنے والےناخوشگوار واقعات اسی طرف اشارہ کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ معاملہ عورت کے لباس، زمان اور مکان تک محدود نہیں۔ اس کی وجوہات بہت گہری ہیں ۔البتہ یہ عورت کو یہ یاد دلانے کی کوشش ضرور ہو سکتی ہے کہ اسے اس وقت یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر اس نے جرات کی ہے تو اب بھگتے بھی۔

پاکستان میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا کیا جارہا ہے؟

خواتین کے لیے پبلک مقامات پر اپنی حفاظت یقینی بنانے کاسفر آسان نہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ خواتین عوامی مقامات پر اپنا حق حاصل کرنے کی خواہش مند بھی ہیں اور اس سلسلے میں کوشش بھی کر رہی ہیں۔گو کہ ابھی ان کی تعداد کم ہے مگر یہ کہا جا سکتاہے کہ ملک کی نصف آبادی کی جانب سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز ہو چکا ہے۔

پبلک اور پرائیوٹ دفاتر میں تو خواتین کافی عرصے سے کام کر رہی ہیں مگراب وہ کبھی کبھارآپ کو رکشہ، ٹیکسی چلاتی نظر آجائیں گی یاکبھی موٹر سائیکل۔وہ دکان دار بھی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر سائیکل چلاتی بھی نظر آتی ہیں۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس راولپنڈی آمنہ بیگ کہتی ہیں کہ پولیس کے محکمہ میں خواتین کی تعداد بڑھانے اور صنفی حساسیت بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس راولپنڈی آمنہ بیگ کہتی ہیں کہ پولیس کے محکمہ میں خواتین کی تعداد بڑھانے اور صنفی حساسیت بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں

گو کہ ایسی خواتین کو تقریباً روزانہ ہی ا یسے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جو آوازے کستے ہیں یا طرح طرح سے انہیں پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اسلام آباد شہر میں جینڈر پروٹیکشن یونٹ کی انچارج ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس آمنہ بیگ پرامید ہیں کہ صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ اردو کے ڈیجیٹل شو 'ع مطابق' میں بات کرتے ہوئے آمنہ بیگ کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں خواتین کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات کی رپورٹںگ بڑھی ہے۔ یقیناً ان شکایات پر کوئی کارروائی ہورہی ہے ، اسی لیے خواتین کا حوصلہ بھی بڑھا ہے اور شکایتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

آمنہ بیگ کہتی ہیں کہ خواتین کو ہراساں کرنے، یا ریپ اور تشدد کے واقعات کے لیے خود خواتین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا غلط رویہ ہے۔ ایسے کسی بھی واقعے کا قصوروار صرف اور صرف جرم کرنے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس بارے میں جینڈر سینسٹوٹی یعنی صنفی حساسیت کی تربیت دی جاتی ہیں اور ایسی تربیت کا بار بار دیا جانابہت ضروری ہے۔

پولیس کے جینڈر پروٹیکشن یونٹ میں صرف خواتین پولیس افسران ہی تعینات ہیں جس کی وجہ سے خواتین شکایت درج کراتے ہوئے خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھتیں اور نہ ہی خواتین سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے یہ تاثر ملے کہ غلطی انہی کی تھی۔

پنجاب پولیس کے تحت کئی شہروں میں خواتین کے لیے ہیلپ ڈیسک موجود ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابھی پاکستان کی پولیس فورس میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔

کراچی میں بھی کچھ عرصہ قبل خواتین کے لیے ایک پروٹیکشن سیل بنایا گیا تھا مگر ایسے ہیلپ ڈیسک کی ضرورت پاکستان کے بڑے شہروں کے مخصوص علاقوں میں نہیں بلکہ ہر شہر اور دیہات کے ہر تھانے میں ہے۔

دوسرا یہ کہ پبلک مقامات پر پولیس کی پٹرولنگ بڑھائے جانے کی ضرورت ہے اور انہیں تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ ان کا مقصد وہاں آئے لوگوں کو بالخصوص خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

خواتین کے لئے محفوظ 'اسپیس' مہیا کرنے کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ معاشرتی سوچ میں تبدیلی اور پدرسری نظام کا مکمل خاتمہ ہونے میں تو شاید وقت لگے مگر حکومتی سطح پر خواتین کی جانب سے ہراسانی اور تشدد کے معاملے پر زیرو ٹولیرنس یا قطعاً برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنا کر، خواتین کی شکایات پر سنجیدگی سے توجہ دے کر اور جرم کے ارتکاب کا ذمہ دار صرف اور صرف ظالم کو ٹھہرا کر انصاف کی جلد فراہمی معاشرے کو واضح پیغام دے سکتی ہے اور خواتین کو یہ اعتماد بھی کہ ملک کا نظامِ قانون و انصاف ان کے ساتھ ہے۔

XS
SM
MD
LG