رسائی کے لنکس

افغانستان کے ساتھ تعلقات میں چین کی ترجیح سیکیورٹی کے امور ہیں، ماہرین


چین۔ طالبان، فائل فوٹو
چین۔ طالبان، فائل فوٹو

امریکہ اور نیٹو کے افغانستان سے انخلا کے بعد چین کی توجہ افغانستان پر زیادہ رہی ہے اور ایک سال سے زائد عرصے کے بعد بھی افغانستان کے حوالے سے اس کی پالیسی پر سیکیورٹی خدشات کا غلبہ برقرار ہے۔

وائس آف امریکہ کے روشن نورزئی کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق چین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے وعدوں کے ساتھ طالبان کی نئی حکومت سے روابط قائم کیے لیکن بیجنگ کو افغانستان سے چین کے مغربی سنکیانگ علاقے میں عسکریت پسندوں کے ممکنہ پھیلاؤ، خطے میں اس کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور افغانستان میں اپنے شہریوں کی سلامتی پر تشویش ہے۔

12 دسمبر کو داعش سے وابستہ، اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ ، نے کابل کے ایک ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں چینی شہری اکثر آتے جاتے تھے۔

اس کے ردِ عمل میں چینی حکومت نے اپنے شہریوں اور کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ جتنا جلد ہو اس ملک سے نکل جائیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے معمول کی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین کو اس سے ’’شدید دھچکہ‘‘ لگا ہے۔ اور یہ کہ افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے پختہ اقدامات کرنے چاہیئیں۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی، چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کا کابل ائیرپورٹ پر استقبال کرتے ہوئے۔ 24 مارچ، 2022
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی، چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کا کابل ائیرپورٹ پر استقبال کرتے ہوئے۔ 24 مارچ، 2022

حملے سے ایک روز قبل طالبان کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا طالبان کی’’ترجیح‘‘ ہے۔ بلخی نے کہا کہ چینی سفیر نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کابل میں بیجنگ کے سفارتی مشن کی حفاظت پر توجہ دیں۔ بلخی نے مزید کہا کہ طالبان نے چینیوں کو یقین دلایا کہ طالبان ’’ کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

سیکیورٹی کے خدشات

واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوشن، جو کہ ایک غیر منافع بخش عوامی پالیسی تنظیم ہے، کی سینئر فیلو وانڈا فیلباب براؤن کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر افغانستان میں چینی مفادات کو اب بھی سلامتی کے مسائل ہیں خاص طور پر چین کے ایغور علاقوں میں عسکریت پسندی کو روکنا۔

1996 سے 2001 تک افغانستان میں طالبان نے اپنے پہلے دور میں، متعدد غیر ملکی انتہا پسند گروپوں کو پناہ دی تھی جن میں ایغور عسکریت پسند بھی شامل تھے۔

افغانستان میں خطرات کا جائزہ لینے سے متعلق اقوام متحدہ کی 2021 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکستان اسلامک پارٹی کے ایغور عسکریت پسند، جنہیں بڑے پیمانے پرمشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM) کے طور جانا جاتا ہے، افغانستان اور شام دونوں ملکوں میں سرگرم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے رکن ممالک کا اندازہ ہے کہ وہ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لی وہ افغانستان سے جنگجوؤں کی چین کی طرف نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔

فیلباب براؤن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کو نہ صرف ایغور عسکریت پسندی بلکہ وسطی ایشیا اور پاکستان میں ’’ بی آر آئی کی سرمایہ کاری کے تحفظ‘‘ کے بارے میں بھی تشویش ہے۔ بی آر آئی چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ہے۔ 2013 میں شروع کیا گیا، یہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور سرمایہ کاری کا ایک وژن ہے، جس کا مقصد چین کے تجارتی راستوں کو زمین اور سمندر کے ذریعے عالمی سطح پر پھیلانا ہے۔

تعلقات ضرور مگر حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا

چین، کابل پر طالبان کے قبضے سے برسوں پہلے طالبان کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور وہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا ہے۔

لیکن چین میں سابق افغان سفیر جاوید احمد قائم کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ ایک سال میں چین اور طالبان کے تعلقات میں کوئی بڑی پیش قدمی نہیں دیکھی۔

وہ کہتے ہیں کہ چین نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا اور فریقین کےسفارتی یا اقتصادی تعلقات میں بھی کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔"

افغانستان: 'علاقائی طاقتوں کا کردار بہت اہم ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:33 0:00

افغانستان پر ان کے قبضے کو 16 ماہ ہو گئے مگر کسی ملک نے ابھی تک طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران تسلیم نہیں کیا ہے۔

الجھن دونوں جانب برقرار ہے

برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں سینئیر فیلو اور سنگاپور کے ایس راج رتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں وزیٹنگ سینئیر فیلو، رافائیل پنٹوچی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے میں جب چین کو افغانستان سے ابھرنے والے خطرات پر تشویش ہے، طالبان کو چین کے اقتصادی اور ترقیاتی وعدوں پر الجھن ہے۔

ان کے مطابق،’’ ایک جانب طالبان کو یہ الجھن ہے کہ وہ خود کو چین کے ساتھ اسی صورتِ حال میں پاتے ہیں جس میں جمہوریہ کی اس سے پہلے کی حکومت تھی، جو بنیادی طور پروسیع سرمایہ کاری کے متعلق گفتگو ہے مگر چینی نکتہ نظر سے اس کا عملی نتیجہ کچھ بھی نہیں۔‘‘

'طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان زیادہ متحرک ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

2016 میں چین نے بی آرآئی کے ایک معاہدے پر سابق افغان حکومت کے ساتھ دستخط کیے تھے اور دس کروڑ ڈالر کے منصوبوں میں رقم لگانے کا وعدہ کیا تھا مگر چین کے’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو‘ کے کسی منصوبے پر افغانستان میں عمل نہیں ہوا ہے۔

اگرچہ چین نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی ہے، جیسا کہ اس سال کے زلزلے کے بعد دی گئی امداد ہے، تاہم سابق افغان وزیر اور کابل یونیورسٹی کے چانسلر حمید اللہ فاروقی کہتے ہیں،’’ چین کی اس مداد کا موازنہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں امریکہ اور یورپ کی اربوں ڈالر کی امداد سے نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’طالبان اگر یہ سوچتے ہیں کہ چین امداد دے گا یا افغانستان کے زیریں ڈھانچے میں اسی طور سرمایہ کاری کرے گا جیسا کہ 20 سال تک مغربی ممالک نے کی تو وہ غلطی پر ہیں۔‘‘

XS
SM
MD
LG