رسائی کے لنکس

فوج کے افسر سمیت چار اہلکاروں کی ہلاکت؛ وادیٔ تیراہ میں سیکیورٹی سخت


پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی وادیٔ تیراہ میں جھڑپ کے دوران فوج کے لیفٹننٹ کرنل سمیت چار اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہے۔

افغان سرحد سے ملحق ضلع خیبر کے اس علاقے میں کرفیو جیسے حالات ہیں جب کہ آمدورفت بھی محدود ہے۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان (آئی ایس پی آر) نے جاری بیان میں کہا تھا کہ یہ جھڑپ پیر کو انٹیلی جینس معلومات کی بنا پر کیے گئے آپریشن کے دوران ہوئی جس میں تین دہشت گرد بھی مارے گئے۔

جھڑپ میں پاکستانی فوج کے لیفٹننٹ کرنل سمیت چار اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور 'لشکرِ اسلام' نے مشترکہ طور پر اس واقعے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

لشکرِ اسلام ماضی میں بھی اس علاقے میں دہشت گرد کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہے۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

خیبر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن منظور آفریدی کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولیات سمیت ذرائع آمدورفت اور مواصلات نہ ہونے کے برابر ہے، اسی وجہ سے معلومات کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔

وادیٔ تیراہ کے سنڈا پال اور راج گال میں سیکیورٹی فورسز نے چوکیاں اور کیمپ قائم کر دیے ہیں مگر سیکیورٹی فورسز کے دستوں کی تعیناتی کے باوجود اس علاقے میں بڑی تعداد میں شدت پسندوں کی موجودگی اور سرگرمیوں سے مقامی قبائل میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

ان عسکریت پسندوں میں اکثریت کا تعلق لشکرِ اسلام سے ہے جسے ٹی ٹی پی کا اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

منظور آفریدی کا کہنا ہے کہ وادیٔ تیراہ میں آفریدی قبائل آباد ہیں اور اس قبیلے کی ذیلی شاخوں کوکی خیل، ذخہ خیل، قمبر خیل اور ملک دین خیل کی جائیدادیں ہیں۔

آفریدی قبائل نہ صرف وادیٔ تیراہ بلکہ خیبر کی تحصیلوں لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ میں بھی آباد ہیں اور اسی بنیاد پر منظور آفریدی کے بقول انہیں پشتو میں دوہ کوری (دو گھروں والے) کہتے ہیں۔

سنڈاپال اور راجگال سمیت وادیٔ تیراہ کے بیشتر علاقوں سے مقامی قبائلیوں نے پہلی بار 2012 میں اس وقت نقل مکانی شروع کی جب سیکیورٹی فورسز نے لشکرِ اسلام کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی۔

منظور آفریدی نے بتایا کہ 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کے دوران وادیٔ تیراہ اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے 'خیبر ون' کے نام سے کارروائی شروع کی گئی جو خیبر ٹو اور خیبر تھری کے ناموں سے 2015 کے اواخر تک جاری رہی۔

وادیٔ تیراہ اور خیبر کی مختلف تحصیلوں کے علاوہ سرحد پار افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبے ننگرہار میں آفریدی قبائل آباد ہیں۔ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر یہ آفریدی قبائل ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں ناطوں میں منسلک ہیں۔

قبائلی صحافی عزت گل آفریدی کہتے ہیں کہ 2012 سے 2014 کے دوران افغانستان سے آفریدی قبائل کے افراد نقل مکانی کر کے وادیٔ تیراہ میں آباد ہوئے تھے۔

اُن کے بقول نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر قبائل واپس جا چکے ہیں مگر اب بھی کوکی خیل قبائل کے ہزاروں افراد کی واپسی نہیں ہوئی۔

فورم

XS
SM
MD
LG