سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو سینئر ججز نے سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو ایک خط لکھا ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے سالانہ خطاب کو مایوس کن قرار دیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین اس خط کو انصاف کی فراہمی کے سب سے بڑے ادارے کے لیے افسوس ناک قرار دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے لکھے گئے اس خط کی کاپی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے اراکین کو بھی بھجوائی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اکیلے سپریم کورٹ نہیں، بلکہ باقی ججز بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کا حصہ ہیں۔
قانونی ماہرین اس صورتِ حال کو پاکستانی عدلیہ اور سائلین کے لیے افسوس ناک قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال کا واحد حل یہ ہے کہ ججز کو ترقی دینے کے فورم جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے لیے باقاعدہ رولز بنائے جائیں، تاکہ ججز کی تعیناتی میں پسند اور ناپسند کے تاثر کو ذائل کیا جا سکے۔
'ججز کی تعیناتی کو سنیارٹی سے منسلک کرنا ہی مسئلے کا حل ہے'
سینئر قانون دان خالد رانجھا کہتے ہیں کہ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ججز کی تعیناتی کو سنیارٹی سے منسلک کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ اس خط سے سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم واضح ہو رہی ہے جو نظامِ انصاف کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئے ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی کے اُصول کو اپنا لیا جائے تو پھر کوئی اعتراض نہیں اُٹھائے گا۔ قانون کے مطابق تو سینئر وکیل کو بھی سپریم کورٹ کا جج بنایا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔
رولز بنائے بغیر معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا: شاہ خاور ایڈووکیٹ
سینئر وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ایک تہائی آسامیاں خالی پڑی ہیں، ایسے میں ججز میں تقسیم کا تاثر پاکستانی عدلیہ کے لیے بہت افسوس ناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 17 ججز پر مشتمل سپریم کورٹ مکمل نہیں ہے۔ اس میں پانچ ججز کی سیٹس اب بھی خالی ہیں۔
شاہ خاور کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست ہے کہ ایک مخصوص بینچ سیاسی کیسز سنتا رہا ہے اور وکلا بھی اس پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ یہ عدلیہ کے لیے درست نہیں اور اگر ایسا کوئی متنازع معاملہ آئے تو فل کورٹ کو اسے سننا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر اس وقت بہت دباؤ ہے، پانچ ہائی کورٹس، سروسز ٹریبونل، الیکشن کمیشن اور الیکشن ٹریبونلز کے کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں آرہی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کئی کیسز اعلیٰ عدالت کے سامنے آرہے ہیں اور وہاں بھی پانچ ججز کم ہیں۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس نے نئے عدالتی سال کے موقع پر حکومت کے حوالے سے جو ریمارکس دیے کہ حکومت ہم سے خوش نہیں ہے۔ ان کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ کیوں کہ اب حکومت کےپاس موقع ہوگا کہ کل کو کوئی حکومت کے خلاف کیس ہو تو وہ یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ نئے عدالتی سال کے موقع پر آپ نے حکومت سے ناخوشی کا اظہار کیا تھا لہذا آپ یہ کیس نہ سنیں۔یہ عدالتی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں جو ملک کے لیے اچھی نہیں ہیں۔
یہ معاملہ حل کیسے ہوسکتا ہے، اس بارے میں شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں اور ججز کی تعیناتی کے معاملہ پر ان کے بہت سے اعتراضات ہیں۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سوائے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے کسی اور ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کیوں نہیں لایا جا رہا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ایسے رولز بنائیں جن سے ایسی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں مزید کیا کہا؟
دونوں ججز نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس کے خطاب کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس نہیں بلکہ تمام ججوں پر مشتمل ہے، چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ان پر تنقید کا جواب دیا اور یکطرفہ بات کی ۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس نے پیر کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 26 جولائی کو وزیرِ اعلٰی پنجاب کے انتخاب کے مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر دیا تھا اور اس حوالے سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار کا کردار بھی جانبدرانہ تھا۔
نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ججز نے خط میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے چار ارکان نے چیف جسٹس کے امیدواروں کی حمایت نہیں کی، أئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن ارکان کی اکثریت سے ججز تعینات کرے، ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ کے عہدے خالی پڑے ہیں۔
نئے عدالتی سال کی تقریب میں اس پر اپنا موؐقف نہ دینے کے حوالے سے دونوں ججز نے کہا کہ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم خطاب کے دوران خاموش رہے، لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے رضامندی سے تعبیر نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یا رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے تا حال اس خط پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
البتہ پیر کو اپنے خطاب میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ ہر صورت میں آئین کا تحفظ یقینی بنائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ صوبائی اسمبلیوں،قومی اسمبلی اور ماتحت عدلیہ کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔