واشنگٹن —
صومالیہ میں صدارتی محل پر شدت پسندوں کے حملے میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم صدر حسن شیخ محمد اس دہشت گرد حملے میں محفوظ رہے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح شدت پسندوں کے ایک گروہ نے جمعے کی نماز کے وقت دارالحکومت موغادیشو میں قائم صدارتی محل 'ولا صومالیہ' پر حملہ کیا۔
سکیورٹی حکام کے مطابق حملہ آوروں کی پوری کوشش تھی کہ وہ کسی طرح عمارت میں داخل ہوجائیں جسے ناکام بنادیا گیا۔ حملے میں 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں صومالی وزیرِاعظم کے 'چیف آف اسٹاف' بھی شامل ہیں۔
'القاعدہ' سے منسلک صومالی شدت پسند تنظیم 'الشباب' نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
لندن میں موجود اقوامِ متحدہ کےسفیر برائے صومالیہ نِک کے نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ حملے کے فوراً بعد انہیں صومالی صدر حسن شیخ محمد کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔
نِک کے کے بقول صومالی صدر نے انہیں بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے صدارتی محل کے مرکزی دروازے کے باہر یکے بعد دیگرے دو خود کش کار حملے کیے جس کے بعد لگ بھگ 15 مسلح حملہ آوروں کا ایک گروہ محل کے احاطے میں داخل ہوگیا۔
عالمی ادارے کے سفیر نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران صدر شیخ محمد بہت پرسکون اور مطمئن تھے۔
صومالی صدر کے دفتر نے 'ٹوئٹر' پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں حملہ ناکام بنانے پر افریقی یونین کے فوجی دستوں اور صومالی نیشنل آرمی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ بیان میں 'الشباب' کے اس حملے کو "مرتے ہوئے جانور کا آخری وار" قرار دیاگیا ہے۔
خیال رہے کہ افریقی ممالک کے صومالیہ میں تعینات فوجی دستوں کی کاروائی کے نتیجے میں گزشتہ تین برسوں کے دوران 'الشباب' کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے جو اس سے قبل ملک کے وسیع رقبے پر قابض تھی۔
تاہم شدت پسند تنظیم کے جنگجو اب بھی صومالیہ کے بعض وسطی اور مرکزی علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً دارالحکومت میں سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات پر اس نوعیت کے حملے کرتے رہتے ہیں۔
صومالی حکومت نے حال ہی میں 'الشباب' کے خلاف فوجی کاروائی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ تنظیم کو باقی ماندہ علاقوں سے بھی نکالا جاسکے۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو میں صومالیہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے سفیر کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں کے دوران 'الشباب' پر فوجی دباؤ میں خاصا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث تنظیم کی پرتشدد کاروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ تنظیم کی یہ کاروائیاں مزید کچھ عرصے تک جاری رہ سکتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی 'الشباب' نے موغا دیشو کے ہوائی اڈے کے نزدیک اقوامِ متحدہ کے ایک قافلے پر ہونے والے کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں چھ افراد مارے گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح شدت پسندوں کے ایک گروہ نے جمعے کی نماز کے وقت دارالحکومت موغادیشو میں قائم صدارتی محل 'ولا صومالیہ' پر حملہ کیا۔
سکیورٹی حکام کے مطابق حملہ آوروں کی پوری کوشش تھی کہ وہ کسی طرح عمارت میں داخل ہوجائیں جسے ناکام بنادیا گیا۔ حملے میں 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں صومالی وزیرِاعظم کے 'چیف آف اسٹاف' بھی شامل ہیں۔
'القاعدہ' سے منسلک صومالی شدت پسند تنظیم 'الشباب' نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
لندن میں موجود اقوامِ متحدہ کےسفیر برائے صومالیہ نِک کے نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ حملے کے فوراً بعد انہیں صومالی صدر حسن شیخ محمد کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔
نِک کے کے بقول صومالی صدر نے انہیں بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے صدارتی محل کے مرکزی دروازے کے باہر یکے بعد دیگرے دو خود کش کار حملے کیے جس کے بعد لگ بھگ 15 مسلح حملہ آوروں کا ایک گروہ محل کے احاطے میں داخل ہوگیا۔
عالمی ادارے کے سفیر نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران صدر شیخ محمد بہت پرسکون اور مطمئن تھے۔
صومالی صدر کے دفتر نے 'ٹوئٹر' پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں حملہ ناکام بنانے پر افریقی یونین کے فوجی دستوں اور صومالی نیشنل آرمی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ بیان میں 'الشباب' کے اس حملے کو "مرتے ہوئے جانور کا آخری وار" قرار دیاگیا ہے۔
خیال رہے کہ افریقی ممالک کے صومالیہ میں تعینات فوجی دستوں کی کاروائی کے نتیجے میں گزشتہ تین برسوں کے دوران 'الشباب' کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے جو اس سے قبل ملک کے وسیع رقبے پر قابض تھی۔
تاہم شدت پسند تنظیم کے جنگجو اب بھی صومالیہ کے بعض وسطی اور مرکزی علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً دارالحکومت میں سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات پر اس نوعیت کے حملے کرتے رہتے ہیں۔
صومالی حکومت نے حال ہی میں 'الشباب' کے خلاف فوجی کاروائی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ تنظیم کو باقی ماندہ علاقوں سے بھی نکالا جاسکے۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو میں صومالیہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے سفیر کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں کے دوران 'الشباب' پر فوجی دباؤ میں خاصا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث تنظیم کی پرتشدد کاروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ تنظیم کی یہ کاروائیاں مزید کچھ عرصے تک جاری رہ سکتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی 'الشباب' نے موغا دیشو کے ہوائی اڈے کے نزدیک اقوامِ متحدہ کے ایک قافلے پر ہونے والے کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں چھ افراد مارے گئے تھے۔