کراچی کے علاقے شیر شاہ میں ہفتے کو ایک نالے میں گیس بھرنے کے باعث ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 17 تک پہنچ گئی ہے۔ دھماکے کے نتیجے میں نالے پر قائم عمارت کو نقصان پہنچا تھا جو جانی نقصان کا سبب بنا۔
جائے حادثہ پر اگرچہ ملبہ ہٹا کر نالے کو صاف کیا جا رہا ہے اور پولیس نے واقعہ کا مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔ تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
ایس ایچ او تھانہ سائیٹ بی زوار حسین کے مطابق یہ عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی اور اسے تعمیر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
سرکار کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل بالسبب اور املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
جس علاقے میں یہ عمارت موجود ہے اس کا انتظامی کنٹرول سندھ انڈسٹریل اسٹیٹ (سائیٹ) کے پاس ہے جو ملک کا سب سے پہلا صنعتی علاقہ ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ عمارت کم از کم 40 سال پرانی اور سندھ حکومت کے اسی ذیلی ادارے یعنی سائیٹ کی ملکیت ہے۔
جس نالے پر عمارت قائم ہے وہ بلدیہ کے علاقے سے سیوریج کا پانی بہار کالونی کے راستے لیاری ندی میں گراتا ہے۔ لیکن یہ نالہ دونوں جانب یعنی بلدیہ اور بہار کالونی کے مقامات پر تجاوزات میں گھرا ہوا ہے اور تعمیرات سے نالہ چھپ چکا ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں ہلاکتوں اور مالی نقصان کی وجہ غیر قانونی تعمیرات اور نالے پر قائم تجاوزات بنی ہوں۔
سال 2016 میں شہر کے مرکز میں واقع عبداللہ ہارون روڈ پر قائم موبائل مارکیٹ کے نیچے گزرنے والے نالے میں بھی دھماکے سے کئی افراد زخمی اور درجنوں دکانیں منہدم ہو گئی تھیں۔
اس وقت بھی نالے پر موجود دکانوں کو ہٹا دیا گیا تھا لیکن کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔
اسی طرح شہر بھر میں ناقص تعمیرات کی وجہ سے درجنوں عمارتیں گر چکی ہیں اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ بالخصوص شہر کے اولڈ سٹی ایریا میں درجنوں ایسی عمارتیں ہیں جو نالوں کے ساتھ یا عین نالوں کے اوپر تعمیر کی گئی ہیں۔ ان میں اسکول، سرکاری دفاتر، رہائشی عمارتیں، کئی بینک اور مساجد شامل ہیں۔
نالوں پر قائم تعمیرات کی وجہ سے سیوریج کے پانی کے بہاؤ میں خلل اور زہریلی گیسوں کے اخراج کا راستہ بھی بند ہوا ہے۔
شہری امور کے ماہر اور کراچی اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر محمد یونس کا کہنا ہے کہ شہر میں ہلاکتوں کے لیے دہشت گرد کارروائیوں کی ضرورت نہیں۔ بے ہنگم، غیر قانونی اور ناقص تعمیرات ہی اس کے لیے کافی ہیں۔
ان کے بقول، شہر کا آدھے سے زیادہ حصہ کچی آبادی یعنی بغیر منصوبہ بندی کی تعمیرات پر محیط ہے۔
محمد یونس نے بتایا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں شہر میں نالوں کی گزر گاہوں کو کم کیا گیا ہے جس پر تعمیرات کھڑی کر کے لیز تک جاری کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ محمود آباد نالہ گزری آؤٹ فال سے سمندر کی جانب جاتا ہے، اس پر مٹی بھر کر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) نے تعمیرات کیں اور اب اس نالے کے ذریعے پانی کا بہاؤ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
محمد یونس مزید کہتے ہیں کہ مائی کلاچی کے مقام پر فلائی اوور کی تعمیر، کے پی ٹی ہاؤسنگ اسکیم بنانے (جسے سپریم کورٹ کے حکم پر اب روکا جا چکا ہے) سے بھی نالوں میں برساتی پانی کا بہاؤ متاثر ہوا ہے۔ یہی حال مچھر کالونی کی جانب سے سمندر میں گرنے والے نالے کا بھی ہے۔
ان کے بقول ضلع وسطی کے علاقے میں حال ہی میں تعمیر ہونے والی گرین لائن بس ریپڈ سسٹم کی تعمیرات سے بھی وہاں برساتی نالے سکڑ چکے ہیں جس سے معمولی برسات سے بھی کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
کراچی اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر کا مزید کہنا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں غریبوں تو فوری ہٹا دیا جاتا ہے لیکن بااثر اشرافیہ کو اس کی مکمل چھوٹ ہے۔
صوبائی وزیرِ اطلاعات سعید غنی کے مطابق شیر شاہ میں نالے پر غیر قانونی تعمیرات کی گئی تھیں اور کچھ عرصہ قبل بھی یہاں ایک چھوٹا دھماکہ ہوا تھا جس کے بعد قریب میں واقع دفاتر کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
ان کے بقول سرکاری نوٹس کے جواب میں بتایا گیا تھا کہ یہ جگہ سائیٹ ایسوسی ایشن نے کرائے پر دے رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سائیٹ ان سے کس بنیاد پر کرایہ وصول کرتی تھی۔
سعید غنی کہتے ہیں وہ نالوں پر قائم تجاوزات کے حق میں نہیں اور موجودہ حکومت اتنی قصور وار نہیں جتنا وہ لوگ اور ادارے ہیں جنہوں نے تعمیرات کی اجازت دی۔
صوبائی حکومت ایک ایسا قانون بھی منظور کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس کی رُو سے شہر بھر میں ایسی تمام عمارتوں کو ریگولرائز کیا جا سکے گا جو بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی، یعنی مناسب ہوا کے گزر، فائر سیفٹی قوانین کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی جگہوں جیسے رفاعی مقاصد کے لیے مختص پلاٹس پر تعمیر کی جا چکی ہیں اور ان میں اب شہری رہائش پذیر ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور شہری امور کے ماہرین ایسے کسی بھی قانون کو منظور کرنے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ اس قانون کے تحت صرف ایسی عمارتوں کو قانونی شکل دی جائے گی جو پانی کے بہاؤ اور سڑکوں پر تعمیر نہیں کی گئیں اور اس کا فیصلہ کمیشن کرے گا۔
شہری امور کے کئی ماہرین کے خیال میں غیر قانونی عمل کو قانونی کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایسی تعمیرات کو قانون کے مطابق ڈھانے میں ہے۔