رسائی کے لنکس

کراچی: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کا حکم، معاملہ کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر قائم عمارت کو ایک ہفتے میں 'کنٹرولڈ ایمونیشن بلاسٹ' سے گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ دھماکے کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی قریبی عمارت یا آبادی کو نقصان نہ پہنچے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر رہائشی عمارت نسلہ ٹاور کے انہدام کے کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ عمارت کے مالک فوری طور پر متاثرین کو رقم کی واپسی کو ممکن بنائے اور کمشنر کراچی اس ضمن میں مالک سے رقم متاثرین کو واپس دلوائیں۔

عدالت نے عمل درآمد رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کر دی ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 22 ستمبر کو متاثرین کی جانب سے دائر کردہ نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے 15 منزلہ عمارت کو گرانے کا حکم بحال رکھا تھا۔

نسلہ ٹاور کا معاملہ کہاں سے شروع ہوا؟

سپریم کورٹ نے رواں برس جون میں عمارت کو سروس روڈ پر تجاوزات قرار دیتے ہوئے گرانے کا حکم دیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب عدالت نے شہر بھر کے نالوں پر قائم تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے شہر کے اس نسبتا پوش علاقے اور اہم ترین شاہراہوں کے سنگم پر واقع نسلہ ٹاور کی تعمیر پر ازخود نوٹس لیا تھا اور اس بارے میں کمشنر کراچی اور دیگر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔

کمشنر کراچی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نسلہ ٹاور کے پلاٹ کا سائز 780 سے بڑھا کر 1121 مربع گز کر دیا گیا تھا جب کہ عمارت کی 780 مربع گز کی لیز بھی غیر قانونی طور پر جاری کی گئی۔

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرے گی جب کہ کمشنر کراچی کی جانب سے 'سندھ پبلک پراپرٹی ریموول آف انکروچمنٹ ایکٹ 2010' کے تحت نسلہ ٹاور کو خالی کرانے کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔

عمارت خالی نہ کرنے کی صورت میں رہائشیوں کے خلاف 15 روز بعد تادیبی کارروائی شروع کرنے کی وارننگ بھی دی گئی ہے۔

نسلہ ٹاور میں مجموعی طور پر 44 فلیٹس ہیں جن میں سے 39 میں خاندان مقیم ہیں۔ اس عمارت کی تعمیر 2013 میں شروع ہوئی تھی اور 2017 میں مکمل ہونے کے بعد لوگوں کو فلیٹ کا قبضہ ملنا شروع ہو چکا تھا۔

نسلہ ٹاور متاثرین کی تنظیم کے رہنما علی احمد کا کہنا ہے کہ تعمیر کے وقت تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے این او سیز حاصل کیے گئے تھے۔ ان کے بقول اِس وقت نسلہ ٹاور میں موجود تین بیڈ رومز پر مشتمل فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو تین کروڑ جب کہ دو بیڈ رومز پر مشتمل فلیٹ کی ویلیو تقریباً دو کروڑ روپے بنتی ہے۔

علی احمد کے بقول بلڈنگ کے مالک کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس قدر رقم موجود نہیں کہ وہ متاثرین کو دے سکے۔

کراچی: تجاوزات کے خلاف آپریشن، متاثرین کی بحالی کیسے ہو گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:58 0:00

علی احمد نے سوال کیا کہ جب یہ عمارت تعمیر ہورہی تھی تو کسی نے توجہ نہیں دی، اب جب اس عمارت کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے تو اس میں رہنے والوں کا مستقبل کا کیا ہو گا؟

جب یہ نکتہ سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تو عدالت کا کہنا تھا کہ عمارت میں رہائش پزیر لوگوں کے مفاد کا تحفظ کر دیا گیا ہے جس کے تحت متاثرین کو رقم کی ادائیگی بلڈر کے ذمے ہے۔

شہری امور پر نظر رکھنے والے ادارے 'اربن ریسورس سینٹر' کے ڈائریکٹر اور ماہر تعمیرات محمد یونس کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تعمیر، لیز جاری کرنے اور پھر اس پر 15 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت کی ذمہ داری کُلی طور پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے جس نے اس حوالے سے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے این او سیز جاری کیے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت حکم پر رہائشی عمارت کو گرانے کا خمیازہ متاثرہ شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن حکومت سندھ کی جانب سے اب تک اُن ملازمین اور افسران کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی جنہوں نے اس غیر قانونی تعمیر کی اجازت دی۔

تاہم اس حوالے سے صوبائی حکومت کا کہنا ہے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات پر ایک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو غیر قانونی عمارتوں سے متعلق سندھ حکومت کو اپنے رائے دے گا۔

صوبائی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کی جائے کہ ایک ریٹائرڈ جج یا گریڈ 21 کے افسر کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دے جو کہ زمین کے الاٹمنٹ، لے آؤٹ پلان کی منظوری اور تمام متنازع منصوبوں کے لیے اضافی زمین دینے اور مجموعی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کا تعین کرے۔

مجوزہ کمیشن اپارٹمنٹس، دکانوں، شورومز وغیرہ کی الاٹمنٹ کی جانچ پڑتال کرے گا اور غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران اور یا منتخب نمائندوں کی نشاندہی کرے گا۔ انکوائری کمیشن اس کی قانونی پوزیشن کا بھی جائزہ لے گا کہ آیا ایسے منصوبوں کو ریگیولرائز کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG