سپریم کورٹ کے تازہ ترین احکامات کے بعد کراچی میں غیر قانونی تعمیرات قرار دی گئی کثیرالمنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو گرانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اعلیٰ عدالت نے فوج کے زیرِ استعمال زمین پر کمرشل سرگرمیوں پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ دفاعی اداروں کا یہ کام نہیں کہ وہ سنیما گھر اور دیگر منافع بخش کام شروع کر دیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کراچی میں تجاوزات کے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدھ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کمشنر کراچی اقبال میمن سے استفسار کیا کہ "نسلہ ٹاور کو گرانے کا کہا تھا وہ ہوا یا نہیں؟"
کمشنر کراچی نے مؤقف اختیار کیا کہ عمارت کو گرانے کے لیے عدالت سے رہنمائی درکار ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیدھی بات کریں بلڈنگ گرائی یا نہیں؟
یاد رہے کہ عدالت نے 25 اکتوبر کو حکم دیا تھا کہ نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں 'کنٹرولڈ ایمونیشن بلاسٹ' سے گرایا جائے۔
بدھ کو اس معاملے پر دوبارہ سماعت ہوئی تو کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ عمارت کو گرانے کا کام شروع کر دیا تھا لیکن حفاظتی اقدامات نہ ہونے اور جان و مال کے خدشے کے باعث اسے روک دیا گیا۔ عدالت کا حکم تھا کہ عمارت کو گرانے کے دوران جان و مال کا نقصان نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا یہاں سے جیل جانے کا ارادہ ہے۔ ابھی جائیں اور نسلہ ٹاور کو گرائیں۔
عدالت نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ شہر کی ساری مشینری لے کر جائیں اور عمارت کو گرائیں۔ اس کے علاوہ تجوری ہائٹس کو بھی آج ہی گرا کر رپورٹ پیش کریں۔
کمشنر کراچی نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے یہ کنفیوژن تھی کہ نسلہ ٹاور کو ڈیٹونیشن سے گرایا جائے لیکن اب یہ ابہام دور ہو گیا ہے اور عمارت کو روایتی طریقے سے ہی گرایا جا رہا ہے۔
کمشنر کراچی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ مزدور اور مشینیں لگا کر عمارت کو توڑا جائے گا اور اس سلسلے میں گیارہویں منزل پر کام شروع ہو چکا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عمارت کو مسمار کرنے کا کام تیز کیا جائے تاکہ اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
عدالتی احکامات کے بعد کمشنر کراچی دیگر افسران کے ہمراہ نسلہ ٹاور پہنچ گئے۔
فوج کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں پر عدالت برہم
کراچی شہر میں تجاوزات کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر ملٹری لینڈ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ان سے استفسار کیا کہ ڈی ایچ اے فیز ون میں کیا بنا رہے ہیں؟ کیا کوئی عمارت بن رہی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ "آپ لوگوں کا طریقہ یہی ہے لمبی دیوار بنا دو پھر اندر کیا ہوتا رہے کچھ پتا نہیں۔ فیصل کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ سی او ڈی میں شادی ہالز بھی چل رہے ہیں سنیما بھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دفاعی اداروں کا یہ کام نہیں کہ منافع بخش کام شروع کر دیا جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیوی والے بھی یہی کر رہے ہیں، گزری میں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی۔ اسٹرٹیجک زمینوں پر کمرشل سرگرمیاں کر رہے ہیں کل مسرور بیس پر بھی سوسائٹی بنا دیں گے۔ ملیر کینٹ بھی بانٹ دیا باقی بھی بانٹ دیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نوٹ کریں اور کل رپورٹ لے آئیں۔
نسلہ ٹاور کا معاملہ کہاں سے شروع ہوا؟
کراچی کی مصروف ترین شاہراہ شارع فیصل پر واقع نسلہ ٹاور مجموعی طور پر 44 فلیٹس پر مشتمل ہے جن میں 39 خاندان مقیم تھے۔ نجی بلڈر کی جانب سے تعمیر کردہ اس عمارت کی تعمیر 2013 میں شروع ہوئی تھی اور 2017 میں اس کی تکمیل کے بعد فلیٹس کا قبضہ الاٹیز کو دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
سپریم کورٹ نے رواں برس جون میں عمارت کو سروس روڈ پر تجاوزات قرار دیتے ہوئے گرانے کا حکم دیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب عدالت نے شہر بھر کے نالوں پر قائم تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے شہر کے اس نسبتاً پوش علاقے اور اہم ترین شاہراہوں کے سنگم پر واقع نسلہ ٹاور کی تعمیر پر ازخود نوٹس لیا تھا اور اس بارے میں کمشنر کراچی اور دیگر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔
کمشنر کراچی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نسلہ ٹاور کے پلاٹ کا سائز 780 سے بڑھا کر 1121 مربع گز کر دیا گیا تھا جب کہ عمارت کی 780 مربع گز کی لیز بھی غیر قانونی طور پر جاری کی گئی۔
نسلہ ٹاور متاثرین کی تنظیم کے رہنما علی احمد کا کہنا تھا کہ تعمیر کے وقت تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے این او سیز حاصل کیے گئے تھے۔ جب یہ عمارت تعمیر ہورہی تھی تو کسی نے توجہ نہیں دی، اب جب اس عمارت کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے تو اس میں رہنے والوں کا مستقبل کا کیا ہو گا؟
جب یہ نکتہ سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تو عدالت کا کہنا تھا کہ عمارت میں رہائش پذیر لوگوں کے مفاد کا تحفظ کر دیا گیا ہے جس کے تحت متاثرین کو رقم کی ادائیگی بلڈر کے ذمے ہے۔
شہری امور پر نظر رکھنے والے ادارے 'اربن ریسورس سینٹر' کے ڈائریکٹر اور ماہر تعمیرات محمد یونس کہتے ہیں غیر قانونی تعمیر، لیز جاری کرنے اور پھر اس پر 15 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت کی ذمہ داری کُلی طور پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے جس نے اس حوالے سے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے این او سی جاری کیے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر رہائشی عمارت کو گرانے کا خمیازہ متاثرہ شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن حکومت سندھ کی جانب سے اب تک اُن ملازمین اور افسران کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی جنہوں نے اس غیر قانونی تعمیر کی اجازت دی۔