سندھ حکومت نے حال ہی میں صوبائی اسمبلی کی جانب سے منظور کیے جانے والے اس قانون پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا ہے جس کے تحت سندھ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا اختیار ختم کردیا گیا تھا۔
سندھ اسمبلی نے تین جولائی کو نیب کے قانون کو صوبے میں منسوخ کرنے اور سندھ محتسب ایجنسی کے قیام کا بل منظور کیا تھا۔
گورنر سندھ کی جانب سے بل پر دو بار اعتراض اور دستخط سے انکار اور پھر صوبائی اسمبلی کی جانب سے تیسری بار منظوری پر بل خودبخود قانون بن گیا ہے۔ لیکن اب سندھ حکومت کو ایک بار پھر اسے تبدیل کرنے کا خیال آیا ہے۔
پیر کو مذکورہ قانون کی منسوخی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ فی الحال ان درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر نہ کیا جائے کیونکہ ان کے بقول سندھ حکومت کا اس قانون پر نظر ثانی کا ارادہ ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل کے اس بیان کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو صوبے میں کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ بیورو کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے نیب قانون کی منسوخی اور احتساب کے لیے نئے ادارے کے قیام پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسے صوبائی حکومت کی مبینہ کرپشن کو بچانے کی ایک چال سمجھتی ہیں۔ ان کے بقول احتساب کے بارے میں ایک وفاقی قانون کو منسوخ کرکے صوبائی حکومت کی جانب سے بل لانا آئین کے بھی خلاف ہے۔
یاد رہے کہ نیب اس وقت سندھ کے 17 سیاست دانوں اور سیکڑوں بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات کررہا ہے۔ ان سیاستدانوں میں سے اکثر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جبکہ نیب کی تحقیقات کا سامنا کرنے والے کئی بیوروکریٹس صوبے میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں نیب کا قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔
انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے بے بنیاد پروپیگنڈے کے باعث سندھ حکومت نے نئے منظور شدہ قانون پر نظرِ ثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کا اختیار صوبائی حکومت کو حاصل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں میں قومی احتساب بیورو کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
نیب کی جانب سے عدالت میں دائر بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب وفاقی قانون کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کا دائرہ کار تمام صوبوں پر محیط ہے۔
بیان کے مطابق سپریم کورٹ بھی نیب کے دائرہ کار کو وفاقی نوعیت کا قرار دے چکی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ جس صوبے میں کرپشن پکڑی جاتی ہے، وہاں ملزمان سے رقم وصول یا جرمانہ عائد کر کے اسی صوبے کے خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔
ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو 2008ء سے 2013ء تک وفاق میں حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن اس نے اس وقت نیب قانون میں کوئی تبدیلی کی اور نہ ہی احتساب کے لیے کوئی ایسا نظام وضع کیا گیا جس پر سب کا اتفاق ہو اور یکساں اطلاق بھی۔
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ جلد صوبائی کابینہ کا اجلاس بلا کر احتساب کے نئے صوبائی قانون سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نیب قانون کے خاتمے کے بل میں ترامیم یا اسے منسوخ کرکے ایک جانب جہاں اپنے ووٹرز میں اپنا تشخص بہتر کرنا چاہتی ہے وہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے بعض تحفظات کو بھی دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔