|
اسلام آباد -- سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری کی قیادت میں 135 رُکنی ایک اعلٰی سطحی وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران مختلف شعبوں میں دو ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جائیں گے۔ تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔
دورے کے دوران سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون انتہائی اہم ہے۔
سعودی وفد کی قیادت وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح کر رہے ہیں اور اس میں 12 نائب وزرا کے علاوہ بڑے سعودی سرمایہ کار شامل ہیں اور توقع ہے کہ اس دورے کے دوران معدنیات، توانائی، آئی ٹی زراعت، تعمیرات اور مالیاتی شعبوں میں 2.2 ارب ڈالر کے 27 معاہدے ہوں گے۔
سعودی وفد نے صدر آصف زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی ہے۔
کن معاہدوں پر دستخط ہو سکتے ہیں؟
سعودی وفد کی پاکستان آمد کے بعد اس حوالے سے مختلف اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 2.2 ارب ڈالر تک کے دو درجن سے زائد معاہدے ہو سکتے ہیں۔
جن شعبوں میں سعودی سرمایہ کار دلچسپی لے رہے ہیں ان میں پیٹرولیم، زراعت اور کان کنی شامل ہیں۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سعودی کمپنی شیل پاکستان کے 77 فی صد حصص خرید سکتی ہے، اس کے علاوہ خانیوال میں 10 ہزار ایکڑ اراضی پر کارپوریٹ فارمنگ کا بھی معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔ 300 پاکستانی کمپنیاں سعودی تاجروں سے رابطہ کریں گی اور ٹیکسٹائل یونٹ بنانے اور مزدور فراہمی میں مدد کی جائی گی۔
سعودی عرب کا معدنیاتی شعبہ پیٹرولیم ڈویژن کے ساتھ باریٹ، زنک اور دیگر معدنیات نکالنے کے حوالے سے معاہدے کرے گا یہ کان پہلے پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کو لیز کی گئی تھی۔
سعودی عرب کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی رکھتا ہے اور خانیوال میں اس حوالے سے مشترکہ پروجیکٹ سامنے آ سکتا ہے جس میں سعودی سرمایہ کاری سے فارمنگ کی جائے گی اور یہاں سے جو بھی فصلیں، پھل اور سبزیوں کی پیداوار ہو گی وہ سعودی عرب کو برآمد ہوں گی۔
دونوں ممالک سیمی کنڈکٹرز کے حوالے سے معاہدہ بھی کریں گے اور سعودی عرب ٹرانسفارمر خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے۔
دونوں ممالک 12 ہزار پیشہ ور ماہرین خدمات کے شعبوں میں سعودی عرب بھجوانے کے سمجھوتے پر بھی دستخط کریں گے۔
صحت کے شعبے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان جوائنٹ وینچر کریں گے جس کے تحت دونوں ممالک میں فارماسیوٹیکل یونٹ تعمیر کیے جائیں گے۔
سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں کیا بہتری لا سکتی ہے؟
تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ حالات کے باوجود اگر سعودی عرب سے سرمایہ کار پاکستان آ رہے ہیں تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار ابھی بھی پاکستان پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں حالات ماضی کی نسبت بہتر ہو رہے ہیں۔ فیول پرائسز میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، انٹرسٹ ریٹ کم ہوا ہے اور پاکستانی روپیہ تقریباً ایک سال سے مستحکم نظر آ رہا ہے۔
موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری کی ہے۔ اس تمام صورتِ حال میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے۔
تجزیہ کار اور ریسرچر طاہر عباس کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان سے غیر ملکی کمپنیاں ملک چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اگرچہ کچھ کمپنیاں ملک چھوڑ کر گئی ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو جن کمپنیوں نے ان کو خریدا ہے وہ بھی غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔
اُن کے بقول شیل پاکستان سے گیا تو سعودی کمپنی نے اسے خریدا اسی طرح ٹوٹل کمپنی کو خریدنے والی بھی فارن کمپنی ہے۔ اسی طرح سعودی کمپنیوں نے آئل سیکٹر کی کئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی آبادی ہے اور گروتھ ریٹ ڈیڑھ سے دو فی صد تک ہے، اس وجہ سے سرمایہ کار پاکستان میں آکر کام کرنا چاہتے ہیں۔
طاہر عباس کے بقول سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں آ رہی ہے تو اس کی وجہ پاکستان میں بزنس کے حوالے سے مواقع ہیں۔ ہمارا زراعت کا شعبہ بہت شان دار ہے۔ لیکن اس میں مہارت کی کمی کی وجہ سے فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ان شعبوں میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں کاروبار میں مسائل کیا ہیں؟
پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں تیزی نہ ہونے کے بارے میں تجزیہ کار اور صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ سعودی وفد کے پاکستان آنے کے بعد مختلف ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان شاید ایم او یوز کا 'قبرستان' ہے جہاں ایم او یوز پر سائن تو بہت ہوتے ہیں۔ لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا اور کرنسی کا ایک دم ڈی ویلیو ہو جانا ہے۔
طاہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرنسی میں استحکام نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے کیوں کہ اگر کوئی سرمایہ کار پاکستانی روپوں میں 10 فی صد منافع حاصل کرتا ہے اور جب اسے ڈالر میں تبدیل کیا جاتا ہے تو وہ منافع کرنسی ڈی ویلیو ہونے کی وجہ سے اکثر صفر ہو جاتا ہے۔
اُن کے بقول سرمایہ کار اپنے سرمایے پر منافع چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے کاروبار کرنا ہے تو ڈالر کو ہر صورت برقرار رکھنا ہو گا۔
خرم شہزاد کہتے ہیں کہ مائنگ، زراعت اور آئی ٹی میں ہمارا پوٹینشل بہت زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے ان میں کام زیادہ نہیں ہو رہا۔ ہمارے پاس دریا ہیں، بہترین موسم ہیں لیکن زراعت میں کچھ نہیں کر پا رہے، ایسے میں سعودی سرمایہ کاری کا آنا اور ان شعبوں میں کام کرنا اچھی ڈیل ثابت ہو سکتی ہے۔
فورم