|
اسلام آباد -- پاکستان میں بے امنی کے واقعات اور سیاسی عدم استحکام کے باعث اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے مستقبل پر بھی سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کونسل تاحال اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پائی کیوں کہ اب بھی سالانہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم صرف دو ارب ڈالرز ہے۔
یہ خدشات ایسے وقت میں ظاہر کیے جا رہے ہیں جب اتوار کی شب کراچی ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے میں دو چینی انجینئرز سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن حکام کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری کی قیادت میں ایک بڑا وفد پاکستان آیا جس سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔
ماہرین کے مطابق جب تک دہشت گردی کے واقعات میں کمی اور امن و امان کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوتی پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت مشکل ہے۔
گزشتہ برس حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) تشکیل دی تھی جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
سرمایہ کاری کونسل کے قیام کا مقصد دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو آسان اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا۔
کونسل نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے زراعت، لائیو اسٹاک، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مراعات اور سہولت کاری کا اعلان کر رکھا ہے۔
حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو پانچ ارب ڈالرز سالانہ تک لانے کا ہدف رکھا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایک سال سے زائد گزر جانے کے بعد بھی کسی بھی شعبے میں بھی غیر ملکی سرمایے سے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ گزشتہ مالی سال غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 1.9 ارب ڈالرز تھا جو اس خطے کے ممالک کے مقابلے میں میں کافی کم ہے۔
'دہشت گردی اور عالمی تنازعات سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہیں'
سسٹیینبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ 'ایس آئی ایف سی' کا مقصد سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور سہولت کاری کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کونسل نے ان شعبوں میں زیادہ مراعات اور سہولت کاری کا اعلان کر رکھا ہے جن میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے علاوہ ہمسایہ ملک چین دلچسپی رکھتے ہیں۔
اُن کے بقول یہی ممالک پاکستان سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری کے لیے بغیر کسی کڑی شرائط کے تیار ہیں۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے بقول مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اب غزہ سے لبنان، یمن اور شام تک پھیل گئی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سعودی عرب اور امارات سے کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اُن کے بقول دوسری جانب پاکستان میں کام کرنے والے چینی ورکز پر دہشت گردوں کے حملوں کا سلسلہ اب تک نہیں رک سکا ہے۔
اُن کے بقول کراچی دھماکے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت حکومت کے لیے مزید معاشی مشکلات پیدا کرے گی۔ سوات میں غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعات پاکستان کے حوالے سے دنیا بھر میں منفی تاثر ابھار رہے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش بھی ملک میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر رہی کیوں کہ آئے روز احتجاج کے باعث دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر بند کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے آنے والے مزدوروں کے قتل کے واقعات سے صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
کیا سرمایہ کاری بورڈ اب غیر فعال ہو گیا ہے؟
سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین اظفر احسن کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 376 ارب ڈالرز ہے اور اس جیسے ترقی پذیر ملک کی جی ڈی پی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تناسب تین فی صد یعنی 10 ارب ڈالر سالانہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ دو ارب ڈالرز سے بھی کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کو قائم ہوئے 15 ماہ ہو چکے ہیں لیکن وہ اب تک وہ کسی بڑے غیر ملکی سرمایہ کار کو پاکستان کی طرف متوجہ نہیں کر سکی ہے۔
اُن کے بقول "ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ہمیں مختلف اداروں میں اہل اور باصلاحیت افراد تعینات کرنا ہوں گے۔ تب ہی ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار ہو گا۔"
انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی قائم کرنے کے بجائے اگر حکومت سرمایہ کار بورڈ کے اختیارات اور اس میں فوج کا کردار بھی بڑھا دیتی تو جتنے اخراجات ایس آئی ایف سی کو قائم کرنے میں آئے اس کا صرف 20 فی صد سرمایہ کاری بورڈ پر لگتا۔
اظفر احسن کے مطابق "ابھی یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ایس آئی ایف سی اور سرمایہ کاری بورڈ مختلف کیسے ہیں۔ ایس آئی ایف سی کو صرف سرمایہ کاری میں حائل دشواریاں دور کرنے اور سرمایہ کاری بورڈ کی معاونت کے لیے قائم کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔"
وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی سرمایہ کار پاکستان آتا ہے تو اس کے معاملات ان دونوں اداروں میں سے کون دیکھے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ اب سرمایہ کاری بورڈ کو وزارتِ تجارت یا صنعت میں ضم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے سرمایہ کاری کی سہولت کاری میں مزید دشواریاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے اسے وزیرِ اعظم ہاؤس کے زیرِ انتظام ہی چلنا چاہیے۔
اُن کے بقول ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ان واقعات کو روکنے کے لیے ہماری سول اور ملٹری قیادت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔
پیداواری لاگت کم کرنے کی کوششیں
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سابق چیئرمین آصف انعام کے مطابق بجلی کے ٹیرف کم کرنے کے لیے ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارمز سے کافی کام ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز غیر ضروری طور پر زیادہ ہیں اور اس کی وجہ سے بجلی بہت مہنگی ہو چکی ہے۔
اُن کے بقول اس وقت برآمدی شعبے کو بجلی سولہ سترہ سینٹ فی یونٹ پڑ رہی ہے۔ اگر اسے کم کر کے دس گیارہ سینٹ کردیا جائے تو ملک کی برآمدات میں سالانہ تین سے چار ارب ڈالرز کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پیداواری لاگت کم ہونے سے جب مقامی صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہو گا تو پھر بیرون ملک سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کریں گے۔
ایس آئی ایف سی کا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کردار
عابد سلہری کے مطابق ایس آئی ایف سی نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اُن کے بقول جب گزشتہ سال چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی کوششوں سے ایس آئی ایف سی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تب ملک شدید معاشی بحران کا شکار اور ڈیفالٹ کے قریب تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈالرز کی افغانستان اور دیگر ممالک کو اسمگلنگ عروج پر تھی۔ اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر پانچ ارب ڈالرز سے بھی نیچے چلے گئے تھے۔ مرکزی بینک نے بینکوں کو امپورٹرز کی ایل سیز کھولنے کے لیے ڈالرز دینا بند کر دیا تھا۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالرز دستیاب ہی نہیں تھے جب کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ ساڑھے تین سو روپے تک پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس کونسل کے ذریعے نہ صرف کرنسی کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کریک ڈاون کیا گیا جس سے نہ صرف ڈالرز کی اسمگلنگ پر قابو پایا گیا بلکہ روپے کی قدر میں استحکام لایا گیا۔
اُن کے بقول اب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے مصنوعات کی اسمگلنگ کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا گیا ہے جس سے مقامی صنعت کو بہت فائدہ ہوا ہے اور امپورٹرز کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔
عابد سلہری نے کہا کہ ماضی میں آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنا صرف وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہوتی تھی اور صوبے اس سے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے تھے۔ تاہم اس بار وفاق اور چاروں صوبوں نے نیشنل فسکل پیکٹ پر دستخط کیے جس کے تحت وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو اب بھی بہت کچھ کرنا ہو گا، تاہم اس میں بھی کوئی ملک کی معاشی صورتِ حال میں کچھ بہتری آئی اور اس میں لامحالہ ایس آئی ایف سی کا بھی کردار ہے۔
فورم