پاکستان کے صوبہ سندھ میں قانون منظور ہونے کے چھ سال بعد ایڈز کے لیے کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن بالآخر جاری کردیا گیا ہے۔
اس کمیشن کے قیام کا اعلان سندھ ہائی کورٹ کے اُن احکامات کے بعد جاری کیا گیا ہے جس سے متعلق مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی آئینی درخواست عدالت میں زیر سماعت تھیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر، ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، انفیکشن کنٹرول سوسائٹی اور دیگر کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست میں کہا گیا تھا کہ قانون منظور ہونے کے چھ سال بعد بھی سندھ حکومت نے کمیشن کا قیام ممکن نہیں بنایا۔
درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ مریضوں کی دیکھ بھال اور اس سے متعلق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں حکومت کوئی واضح حکمت عملی کے ساتھ کام نہیں کررہی جس کے باعث مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم اب صوبائی حکومت نے 'سندھ ایڈز کمیشن' کے قیام کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے۔
سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ایڈز کمیشن جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی، ڈاکٹر بشیر آرائیں، گل منیر شاہ، سابق آئی جی سندھ شبیر شیخ اور سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ حسین بخش میمن پر مشتمل ہوگا۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق کمیشن کا کام صوبے میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی روک تھام کے علاوہ اس مرض کا شکار لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی ہے۔
ایک دس رکنی ورکنگ کمیٹی بھی اس کمیشن کی زیر نگرانی کام کرے گی جس میں مختلف اہم اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے وابستہ دیگر افراد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ کمیشن میں شامل جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی سندھ ہیومن رائٹس کمیشن میں بھی چئیر پرسن کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
جسٹس (ر) ماجدہ رضوی کی کمیشن میں شمولیت سے معذرت
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سندھ ایڈز کمیشن' میں تقرری سے قبل ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی کیونکہ وہ مختلف دیگر اداروں میں پہلے ہی مصروف عمل ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ یقیناً حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن ایڈز کمیشن پر کام کرنے کے لیے ان کے پاس مناسب وقت موجود نہیں جس کے باعث وہ اس مرض کی روک تھام پر توجہ نہیں دے سکیں گی۔
صحت اور قانون کے شعبے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے حکومت نے کمیشن کے قیام کا اعلان جلد بازی میں کیا ہے جس کا مقصد عدالتی احکامات کی نفی سے دور رہ کر توہین عدالت کی گرفت سے بچنا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس سے قبل بھی صوبائی حکومت کی جانب سے یہ جواب عدالت میں جمع کرایا گیا تھا کہ اس سے قبل کمیشن کے دو اراکین نے اس میں شامل ہونے سے معذرت کرلی تھی۔ جس کی بناء پر کمیشن کی تشکیل عمل میں نہیں لائی جاسکی تھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ چھ سال بعد اور صوبے میں ایک سال میں ایچ آئی وی کے 800 سے زائد نئے کیسز سامنے آنے کے بعد بھی کمیشن کے قیام کے بارے میں عدالتی احکامات ہی کا انتظار کیوں کیا جاتا رہا؟
اور اب بھی اگر جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی نے کمیشن میں شمولیت سے معذرت کرلی تو کیا اس موذی اور جان لیوا بیماری سے بچاؤ کے لیے کمیشن کے قیام میں مزید تاخیر نہیں ہوجائے گی؟
اور اگر یہ کمیشن مرض کا پھیلاؤ روکنے میں اتنا ہی ضروری تھا تو اسے قائم کرنے کے لیے ایکٹ ہی کیوں بنانا پڑا۔ حالانکہ 15 دنوں میں اس کا قیام عمل میں لایا جاسکتا تھا۔
درخواست گزاروں کا مؤقف
سندھ ہائیکورٹ میں 'ایڈز کمیشن' کے قیام سے متعلق درخواست دائر کرنے والوں کے وکیل محمد واوڈا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آئینی درخواست دائر کرنے کا اصل مقصد حکومت کو اس موذی مرض سے نمٹنے کے لیے خبردار کرنا ہے۔
محمد واوڈا کے مطابق کمیشن کے مقاصد میں مرض کی روک تھام کے لیے قوانین اور پالیسی کی تیاری بھی شامل ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ضروری ہے کہ ایچ آئی وی کا شکار مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے۔ انہیں حکومتی اخراجات پر ادویات فراہم کی جائیں اور ان کا باقاعدہ علاج کیا جائے تاکہ انسانی جانوں کے تحفظ کے ساتھ مرض کے پھیلاؤ کو بھی روکا جاسکے۔
محمد واوڈا کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم نکتہ جو اس آئینی پٹیشن میں اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کئی افراد جو اس بیماری کا شکار ہیں وہ پوری طرح مرض سے آگاہ نہیں۔ لہذا اسپتالوں میں آنے والے لوگوں کی لازمی اسکریننگ کی جائے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ حقیقت میں ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق جب تک ایڈز کے مریضوں کی اصل تعداد کا پتہ نہ چل جائے اِس بیماری کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی شرح میں اضافہ
پاکستان کے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک بھر میں اس وقت ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں جس میں سے صرف 26 ہزار 854 افراد رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم ان میں سے بھی صرف 16 ہزار افراد ہی باقاعدہ علاج کروا رہے ہیں۔
حال ہی میں 895 نئے مریض سامنے آئے ہیں جن میں 754 بچّے بھی شامل ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایڈز کے مریضوں میں گزشتہ آٹھ سال میں اموات کی شرح میں 369 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سن 2018 میں 6400 افراد ایڈز کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جس کے باعث تقریباً 42 ہزار بچّے سرپرست سے محروم ہو کر یتیم ہوئے۔ خیال رہے کہ صرف گزشتہ سال اس مرض کا شکار ہونے والوں میں 22 ہزار نئے مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔
یو این ایڈز پروگرام کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے شکار افراد میں کم از کم 48 ہزار کے لگ بھگ خواتین شامل ہیں۔ گزشتہ سال ملک بھر سے 1400 بچے بھی ایچ آئی وی کا شکار ہوئے ہیں۔ 2010 سے لے کر 2018 تک پاکستان میں ایچ آئی وی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں 57 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔