کراچی —
سندھ اسمبلی پیر کو انتہائی گہماگہمی اور سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ ایک جانب ایوان کے اندر غیر قانونی ’سمز‘ کی بندش کے حق میں قرارداد کی منظوری کے لئے ایوان میں گرماگرم تقریریں جاری رہیں، تو دوسری جانب ایوان کے باہر، وکلاء نے اپنے ساتھیوں کی مبینہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کیا۔
کچھ وکلاء دیواریں پھلانگ کر اسمبلی بلڈنگ کے اندر آگئے تو کچھ نے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا۔
پیر کو اجلاس ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی سربراہی میں شروع ہوا تو جو سب سے اہم مسئلہ پیش ہوا وہ تھا ملک بھر میں موجود انگنت غیر قانونی موبائل سمز کا استعمال اور ان کے ذریعے پھیلتی دہشت گردی اور دیگر جرائم۔
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر سیما ضیاء نے ابتدا کی جبکہ بعد میں دیگر ارکان نے بھی ان سے اتفاق رائے کرتے ہوئے غیر قانونی سمز کا معاملہ اٹھایا اور اس پر پابندی کے حق میں دلائل دیئے۔ با لآخر غیر قانونی اور غیر رجسٹر موبائل سمز پر پابندی کے لئے اتفاق رائے سے قرار داد منظور کرلی گئی۔
’پاکستان تحریک انصاف‘ کی رکن اسمبلی ڈاکٹر سیما ضیاء کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد پر دیگر جماعتوں کے رہنماوٴں کی جانب سے بھی دستخط کئے گئے تھے۔
قرار داد میں کہا گیا ہے کہ چونکہ غیر قانونی سمز دہشت گردی اور بھتہ خوری سمیت متعدد جرائم کا بڑاسبب ہیں، لہذا ان پر مکمل اور فوری پابندی عائد کی جائے۔
سرکاری نیوز ایجنسی، اے پی پی کے مطابق، موبائل سمز کے ذریعے ہونے والے جرائم کے حوالے سے ڈاکٹر سیماضیاء کا ایوان سے خطاب میں کہنا تھا کہ ملک بھر میں ساڑھے چار کروڑ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ سمیں موجود ہیں۔آئی جی سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ 90فیصد جرائم میں یہی غیر رجسٹر سمز استعمال ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق، غیر قانونی سموں کے ذریعے جنوبی افریقا، افغانستان اور اور دیگر کئی ممالک سے بھتہ وصولی کے لئے کالز موصول ہوتی ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات، شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اگر غیر رجسٹر اور غیر قانونی سمیں بند نہ کی گئیں تو حکومت سندھ موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور بند کردے کیونکہ ٹیکس انسانی زندگیوں سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اس معاملے پر وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے کئی مرتبہ بات کی ہے۔ لیکن غیر رجسٹرڈ سمیں اب تک بند نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ایک کالعدم تنظیم سے 5ہزار غیر رجسٹرڈ سمیں برآمد ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے مطابق، یکم جون سے نئی سمیں بائیومیٹرک سٹم کے تحت فروخت ہوں گی۔ لیکن، پہلے سے موجود غیر رجسٹرڈ سمز سے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
وکلا ء کا احتجاج، سندھ اسمبلی کی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل
کراچی میں کئی سال سے جاری ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ انتہائی سنگین ہوتا جارہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں اب تک متعدد ڈاکٹر، وکیل، اساتذہ اور دیگر پیشہ ور افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پیر کو سندھ اسمبلی کے باہر وکلا نے اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی اور سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا، جبکہ کچھ وکلا دیوار پھلانگ کر اسمبلی احاطے میں بھی داخل ہوگئے۔
وکلاء بضد تھے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ احتجاج اور دھرنا جاری رکھیں گے ۔ اس موقع پر سندھ کے سینئر وزیر نثار کھہڑو آگے آئے اور انہوں نے وکلاء کو ان کے مطالبات پر غور کئے جانے کی یقین دہانی کرائی جس پر وکلاء کا احتجاج اور دھرنا ختم ہوا۔
احتجاج میں کراچی کے تمام بارز کے وکلاء شامل تھے۔ ریلی کا آغاز سندھ ہائی کورٹ سے ہوا تھا۔ وکلاء کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاں بحق وکلاء کے لواحقین کو امداد دینے کے اعلان پر عملدرآمد کیا جائے، جبکہ سٹی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں سیکورٹی اقدامات بہتر بنائے جائیں۔
وکلاء کی جانب سے دیواریں اور دروازے پھلانک کر اسمبلی کے احاطے میں داخل ہونے پر وکلاء اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
کچھ وکلاء دیواریں پھلانگ کر اسمبلی بلڈنگ کے اندر آگئے تو کچھ نے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا۔
پیر کو اجلاس ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی سربراہی میں شروع ہوا تو جو سب سے اہم مسئلہ پیش ہوا وہ تھا ملک بھر میں موجود انگنت غیر قانونی موبائل سمز کا استعمال اور ان کے ذریعے پھیلتی دہشت گردی اور دیگر جرائم۔
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر سیما ضیاء نے ابتدا کی جبکہ بعد میں دیگر ارکان نے بھی ان سے اتفاق رائے کرتے ہوئے غیر قانونی سمز کا معاملہ اٹھایا اور اس پر پابندی کے حق میں دلائل دیئے۔ با لآخر غیر قانونی اور غیر رجسٹر موبائل سمز پر پابندی کے لئے اتفاق رائے سے قرار داد منظور کرلی گئی۔
’پاکستان تحریک انصاف‘ کی رکن اسمبلی ڈاکٹر سیما ضیاء کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد پر دیگر جماعتوں کے رہنماوٴں کی جانب سے بھی دستخط کئے گئے تھے۔
قرار داد میں کہا گیا ہے کہ چونکہ غیر قانونی سمز دہشت گردی اور بھتہ خوری سمیت متعدد جرائم کا بڑاسبب ہیں، لہذا ان پر مکمل اور فوری پابندی عائد کی جائے۔
سرکاری نیوز ایجنسی، اے پی پی کے مطابق، موبائل سمز کے ذریعے ہونے والے جرائم کے حوالے سے ڈاکٹر سیماضیاء کا ایوان سے خطاب میں کہنا تھا کہ ملک بھر میں ساڑھے چار کروڑ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ سمیں موجود ہیں۔آئی جی سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ 90فیصد جرائم میں یہی غیر رجسٹر سمز استعمال ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق، غیر قانونی سموں کے ذریعے جنوبی افریقا، افغانستان اور اور دیگر کئی ممالک سے بھتہ وصولی کے لئے کالز موصول ہوتی ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات، شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اگر غیر رجسٹر اور غیر قانونی سمیں بند نہ کی گئیں تو حکومت سندھ موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور بند کردے کیونکہ ٹیکس انسانی زندگیوں سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اس معاملے پر وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے کئی مرتبہ بات کی ہے۔ لیکن غیر رجسٹرڈ سمیں اب تک بند نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ایک کالعدم تنظیم سے 5ہزار غیر رجسٹرڈ سمیں برآمد ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے مطابق، یکم جون سے نئی سمیں بائیومیٹرک سٹم کے تحت فروخت ہوں گی۔ لیکن، پہلے سے موجود غیر رجسٹرڈ سمز سے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
وکلا ء کا احتجاج، سندھ اسمبلی کی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل
کراچی میں کئی سال سے جاری ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ انتہائی سنگین ہوتا جارہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں اب تک متعدد ڈاکٹر، وکیل، اساتذہ اور دیگر پیشہ ور افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پیر کو سندھ اسمبلی کے باہر وکلا نے اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی اور سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا، جبکہ کچھ وکلا دیوار پھلانگ کر اسمبلی احاطے میں بھی داخل ہوگئے۔
وکلاء بضد تھے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ احتجاج اور دھرنا جاری رکھیں گے ۔ اس موقع پر سندھ کے سینئر وزیر نثار کھہڑو آگے آئے اور انہوں نے وکلاء کو ان کے مطالبات پر غور کئے جانے کی یقین دہانی کرائی جس پر وکلاء کا احتجاج اور دھرنا ختم ہوا۔
احتجاج میں کراچی کے تمام بارز کے وکلاء شامل تھے۔ ریلی کا آغاز سندھ ہائی کورٹ سے ہوا تھا۔ وکلاء کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاں بحق وکلاء کے لواحقین کو امداد دینے کے اعلان پر عملدرآمد کیا جائے، جبکہ سٹی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں سیکورٹی اقدامات بہتر بنائے جائیں۔
وکلاء کی جانب سے دیواریں اور دروازے پھلانک کر اسمبلی کے احاطے میں داخل ہونے پر وکلاء اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔