حکومت کی مدت پوری ہونے سےصرف دس روز قبل سندھ میں حقیقی اپوزیشن وجود میں آگئی اور سندھ کی دوسری بڑی جماعت کا قائد حزب اختلاف بھی مقررکر دیا گیا۔
سنہ 2008 کے بعد موجودہ حکومت کےقیام سے ہی سندھ میں دلچسپ صورتحال درپیش رہی۔ آغاز پر کچھ عرصے تک ایک نام نہاد اپوزیشن رہی، مسلم لیگ ( فنکشنل ) کے پارلیمانی لیڈر جام مدد علی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ لیکن، پھر اُن کی جماعت حکومت کا حصہ بن گئی اور مسلم لیگ (ہم خیال) کے چار ارکان کے سوا باقی تمام لوگ حکومت میں شامل ہوگئے۔
ستمبر 2012ء میں نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت میں مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی اپوزیشن بینچوں پر آگئیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے اسپیکر سندھ اسمبلی کو درخواست بھی دے دی گئی اور سندھ ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا گیا، جس پر عدالتی حکم آیا کہ 10 روز میں اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ تاہم، اِس سے پہلے ہی ایم کیو ایم اپوزیشن میں جا بیٹھی اور اے این پی دو ارکان کے ساتھ حکومت میں آ گئی۔
حکومتی مدت پوری ہونے سے 10 روز قبل منگل کو متحدہ قومی موومنٹ کے سید سردار احمد کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کُھہڑو کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے تحت ایوان میں اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم کی درخواست پر سید سردار احمد کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا گیا ہے۔ منگل کو ہی ایم کیوایم کے 11 وزرا کے استعفیٰ بھی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے منظور کرلئے۔
اس طرح، موجودہ حکومت میں پہلی بار سندھ اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن سامنے آئی ہے۔ ایم کیو ایم کے 51، مسلم لیگ فنکشنل کے آٹھ، نیشنل پیپلزپارٹی تین اور مسلم لیگ ہم خیال کے چار ارکان کو ملا کر یہ تعداد 66 تک جا پہنچی ہے جبکہ حکومتی بینچوں پر ارکان کی تعداد تقریباً 100 ہو چکی ہے۔
دوسری جانب، نگراں سیٹ اپ سے صرف 10 روز قبل حقیقی جمہوریت عمل میں آنے پر حکمراں مخالف حلقوں میں بہت سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد سے ہی بحث گرم ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ریکارڈ ساز عرصے تک چلنے والا حکومتی اتحاد بظاہر ختم ہو گیا۔ لیکن، کیا دونوں کے درمیان سیاسی اتحاد بھی ختم ہو ا ہے کہ نہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا نے پہلے ہی پیش گوئی کی تھی کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ایم کیو ایم اپوزیشن میں آئے گی اور دونوں جماعتیں اپنی مرضی کا نگراں وزیراعلیٰ سندھ منتخب کریں گی اور ان کے اس بیان کی تائید دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے باوجود گورنر سندھ نے استعفیٰ نہیں دیا اور اسی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کا صرف حکومتی اتحاد ختم ہوا ہے سیاسی اتحاد برقرار ہے۔ لیکن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت مسلسل اس تاثر کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے اور ان کا موقف ہے کہ گورنر سندھ کا استعفیٰ کراچی میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کی وجہ سے صدر نے منظور نہیں کیا تھا۔
اس تمام تر تناظر میں بدھ کو ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کراچی اور لندن کے اہم اجلاس پر نظریں جمی ہیں۔ جس کے بعد، بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کا اعلان کرے گی اور بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ گورنر سندھ کے مستقبل سے متعلق بھی کوئی اہم اعلان ہو سکتا ہے۔
سنہ 2008 کے بعد موجودہ حکومت کےقیام سے ہی سندھ میں دلچسپ صورتحال درپیش رہی۔ آغاز پر کچھ عرصے تک ایک نام نہاد اپوزیشن رہی، مسلم لیگ ( فنکشنل ) کے پارلیمانی لیڈر جام مدد علی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ لیکن، پھر اُن کی جماعت حکومت کا حصہ بن گئی اور مسلم لیگ (ہم خیال) کے چار ارکان کے سوا باقی تمام لوگ حکومت میں شامل ہوگئے۔
ستمبر 2012ء میں نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت میں مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی اپوزیشن بینچوں پر آگئیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے اسپیکر سندھ اسمبلی کو درخواست بھی دے دی گئی اور سندھ ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا گیا، جس پر عدالتی حکم آیا کہ 10 روز میں اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ تاہم، اِس سے پہلے ہی ایم کیو ایم اپوزیشن میں جا بیٹھی اور اے این پی دو ارکان کے ساتھ حکومت میں آ گئی۔
حکومتی مدت پوری ہونے سے 10 روز قبل منگل کو متحدہ قومی موومنٹ کے سید سردار احمد کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کُھہڑو کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے تحت ایوان میں اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم کی درخواست پر سید سردار احمد کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا گیا ہے۔ منگل کو ہی ایم کیوایم کے 11 وزرا کے استعفیٰ بھی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے منظور کرلئے۔
اس طرح، موجودہ حکومت میں پہلی بار سندھ اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن سامنے آئی ہے۔ ایم کیو ایم کے 51، مسلم لیگ فنکشنل کے آٹھ، نیشنل پیپلزپارٹی تین اور مسلم لیگ ہم خیال کے چار ارکان کو ملا کر یہ تعداد 66 تک جا پہنچی ہے جبکہ حکومتی بینچوں پر ارکان کی تعداد تقریباً 100 ہو چکی ہے۔
دوسری جانب، نگراں سیٹ اپ سے صرف 10 روز قبل حقیقی جمہوریت عمل میں آنے پر حکمراں مخالف حلقوں میں بہت سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد سے ہی بحث گرم ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ریکارڈ ساز عرصے تک چلنے والا حکومتی اتحاد بظاہر ختم ہو گیا۔ لیکن، کیا دونوں کے درمیان سیاسی اتحاد بھی ختم ہو ا ہے کہ نہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا نے پہلے ہی پیش گوئی کی تھی کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ایم کیو ایم اپوزیشن میں آئے گی اور دونوں جماعتیں اپنی مرضی کا نگراں وزیراعلیٰ سندھ منتخب کریں گی اور ان کے اس بیان کی تائید دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے باوجود گورنر سندھ نے استعفیٰ نہیں دیا اور اسی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کا صرف حکومتی اتحاد ختم ہوا ہے سیاسی اتحاد برقرار ہے۔ لیکن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت مسلسل اس تاثر کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے اور ان کا موقف ہے کہ گورنر سندھ کا استعفیٰ کراچی میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کی وجہ سے صدر نے منظور نہیں کیا تھا۔
اس تمام تر تناظر میں بدھ کو ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کراچی اور لندن کے اہم اجلاس پر نظریں جمی ہیں۔ جس کے بعد، بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کا اعلان کرے گی اور بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ گورنر سندھ کے مستقبل سے متعلق بھی کوئی اہم اعلان ہو سکتا ہے۔