پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل 'ہم ٹی وی' کے ڈرامہ سیریل 'سنگِ ماہ' میں گلوکار عاطف اسلم کی اداکاری کو پسند کیا جا رہا ہے۔انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بہت سے اداکار گلوکاری یا دیگر شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں جن میں سے کئی کامیاب تو کئی کو ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
'عادت' سے مشہور ہونے والے گلوکار عاطف اسلم ڈرامے میں اداکاری سے قبل 2011 میں شعیب منصور کی فلم 'بول' میں مرکزی کردار ادا کرچکے ہیں لیکن اس بار انہوں نے اداکاری کے لیے ڈرامہ انڈسٹری کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ہے۔
اسی طرح گلوکارہ حدیقہ کیانی بھی ڈرامہ انڈسٹری میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔ وہ اس وقت ڈرامہ سیریل 'دوبارہ' میں ایک بیوہ کا کردار ادا کررہی ہیں جسے ایک نوجوان لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ گزشتہ برس ریلیز ہونے والے ڈرامے 'رقیب سے' میں بھی انہوں نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
نوے کی دہائی سے حدیقہ کیانی گلوکاری کے میدان میں فعال ہیں جبکہ عاطف اسلم کو بھی تقریبا گلوکاری کرتے ہوئے 20 سال ہونے کو ہیں۔
گلوکاروں کا اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنا کوئی نیا ٹرینڈ نہیں۔ ماضی میں بھی پاکستان، بھارت اور ہالی وڈ میں کئی گلوکاروں نے اداکاری میں طبع آزمائی کی ہے۔
اگر ہالی وڈ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں یہ ٹرینڈ گلوکار بنگ کروسبی لے کرآئے تھے۔ انہیں 40 کی دہائی میں بہترین اداکاری پر ایک اکیڈمی ایوارڈ ملا تھا جب کہ وہ دوسرے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوئے تھے۔ ان ہی سے متاثر ہوکر فرینک سناٹرا اور ڈین مارٹن بھی فلموں میں آئے اور کامیابیاں سمیٹیں۔
لیکن فلموں میں جو کامیابی گلوکار ایلوس پریلسی کو حاصل ہوئی وہ ہر کسی کو نہیں ملی۔ 42 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے گلوکار نے ساٹھ کی دہائی میں کئی کامیاب فلموں میں اداکاری کی ۔ ان ہی کی طرح جسٹن ٹمبرلیک بھی فلموں میں آئے لیکن ان کی کامیابی کا رجحان ملا جلا رہا۔
'نیو کڈ آن دے بلاک' بینڈ کے بانی ممبر مارکی مارک اس وقت شاید کسی کو یاد نہیں لیکن ہالی وڈ اداکار مارک والبرگ کی فلمیں تقریباً سب ہی نے دیکھی ہوں گی۔
لڑکپن میں مارک والبرگ نے 'مارکی مارک اینڈ دی فنکی بنچ 'کے نام سے ایک میوزک بینڈ بنایا تھا جس میں مارکی مارک ان کا اسٹیج نام تھا۔ اس وقت ان کا شمار ہالی وڈ کے بڑے ایکشن ہیروز میں ہوتا ہے۔
اگر سیاہ فام امریکی گلوکاروں کی بات کی جائے تو یہ سلسلہ 1950 میں سیمی ڈیوس جونیئر سے شروع ہوا تھا جو فرینک سناٹرا اور ڈین مارٹن کے ساتھ 'اوشینز الیون' کا حصہ تھے۔ ان کے بعد آئس کیوب اور آئس ٹی بھی اداکار بنے اور کامیاب ہوئے جب کہ گلوکاری میں نام بنانے والے لوڈیکریس اور ٹائریز گبسن 'فاسٹ اینڈ دی فیوریس' سیریز کا حصہ ہیں۔
ویسے تو مائیکل جیکسن نے بھی کچھ فلموں میں اداکاری کی لیکن سیاہ فام گلوکاروں میں سب سے زیادہ کامیاب اداکار ول اسمتھ رہے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز بطور گلوکار کیا تھا۔
بعد ازاں ول اسمتھ 'فریش پرنس آف بیل ایئر' کے ذریعے اداکاری کی دنیا میں آئے اور پھر انہوں نے 'انڈی پینڈنس ڈے'، 'مین ان بلیک'، اور 'بیڈ بوائز' جیسی ہٹ فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا۔
علاوہ ازیں ول اسمتھ کو فلم 'علی' کے لیے آسکرز نے بہترین اداکار کی کیٹیگری میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔
گلوکاری سے اداکاری کی دنیا میں آنے والے مردوں کے شانہ بشانہ چند خواتین گلوکارائیں بھی رہی ہیں اورآسکر کی دوڑ میں ان کا پلڑا زیادہ بھاری رہا۔
گلوکارہ باربرا اسٹرائسینڈ ، شیر اور جنیفر ہڈسن نے بطور اداکار آسکر جیتے جب کہ جوڈی گارلینڈ، ڈوروتھی ڈینڈریج ، ڈیانا روس، کوئین لاتیفہ اور لیڈی گاگا کے حصے میں اکیڈمی ایوارڈ کی نامزدگی آئی۔
اپنے زمانے کی مقبول ترین پاپ سنگرمیڈونا ہوں یا وٹنی ہیوسٹن، سب ہی نے فلموں میں طبع آزمائی کی اور کامیابی سمیٹی۔لیکن سب سے طویل فلمی کریئر اگر کسی گلوکارہ کا ہے تو وہ باربرا اسٹرائسینڈ ہیں جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں اداکاری شروع کی اور آج بھی کامیابی سے اس سے جڑی ہوئی ہیں۔
نوے کی دہائی میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کرنے والی جینفر لوپیز کئی ہٹ فلموں کا حصہ رہیں جب کہ بیونسے نوئلز نے بھی اداکاری کے میدان میں قدم رکھا۔
ان ہی گلوکاراؤں کی طرح مینڈی مور، مرایا کیری اور جینٹ جیکسن بھی فلموں میں آئیں۔ البتہ اس وقت اوکوافینا گلوکاری کے ساتھ اداکاری میں بھی مصروف ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں تقسیم سے قبل ملکہ ترنم نورجہاں کی وجہ شہرت ہی ان کی گلوکاری اور اداکاری دونوں شعبوں میں مہارت تھی۔ سن 1947 میں پاکستان آکر بھی انہوں نے اداکاری اور گلوکاری کا ایک ساتھ سلسلہ جاری رکھا جبکہ انہوں نےہ ساٹھ کی دہائی میں خود کو گلوکاری کے لیے وقف کیا۔
انہیں ملکہ ترنم نورجہاں کا خطاب بھی بھارت میں قیام کے دوران ہی ملا تھا۔ میڈم نورجہاں نے نوے کی دہائی تک اردو اور پنجابی فلموں میں پلے بیک گلوکاری کی جنہیں آج بھی سنا جاتا ہے۔
اسی طرح معروف گلوکار عنایت حسین بھٹی نے بھی اردو اور پنجابی فلموں میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کی۔ جنگی ترانہ 'اللہ و اکبر' ان ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ان کی بطور ہیرو کئی فلمیں سپر ہٹ قرار پائیں۔ ساٹھ کی دہائی میں طلعت صدیقی کی دونوں شعبوں میں طبع آزمائی کے بعد بہت کم گلوکاروں نے فلموں میں اداکار ی کی۔
گلوکار احمد رشدی ، اسد امانت علی خان اور اے نئیر نے اداکاری کی کوشش کی لیکن نا کام رہے۔جب کہ پاپ گلوکار محمد علی شہکی اور لوک فن کار عارف لوہار قدرے کامیاب رہے۔
اسی اور نوے کی دہائی میں آنے والی کئی فلموں میں شہکی ہیرو اور عارف لوہار سائڈ ہیرو تھے۔ شہکی کی 'سن آف ان داتا'، 'شور' اور 'ہانگ کانگ کے شعلے' کے گانے لوگوں کو آج بھی یاد ہیں جب کہ عارف لوہار کی فلموں میں 'ہیرو' اور 'جگنی' سرفہرست ہیں۔
ویسے تو جنید جمشید نے پی ٹی وی کے 'دھندلے راستے' میں اپنے 'وائٹل سائنز' کے ساتھیوں روحیل حیات اور شہزاد حسن کے ساتھ کام کیا تھا لیکن 'وائٹل سائنز 'کے سابق ممبر اور جنون کے سلمان احمد نے ایک قدم آگے جاکر متعدد ڈراموں میں اداکاری کی۔ جس میں حسینہ معین کا لکھا 'آہٹ' اور انور مقصود کی تحریر کردہ ٹیلی فلم 'تلاش' قابلِ ذکر ہے۔
اسی طرح موسیقار و گلوکار عدنان سمیع خان نے نوے کی دہائی میں فلم 'سرگم' میں اداکاری کی لیکن اس کے بعد خود کو موسیقی تک ہی محدود کر دیا۔ تاہم ان کے ہم عصر سجاد علی نے 'وچن'، 'منڈا تیرا دیوانہ' اور 'ایک اور لو اسٹوری' اور علی حیدر نے 'چلو عشق لڑائیں' فلم میں کام کیا۔
علی حیدر نے متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی اداکاری کی جن میں سے چند کامیاب بھی ہوئے۔
ڈرامہ سیریل 'ہم سفر 'سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے فواد خان نے نوے کی دہائی کے آخر میں میوزک بینڈ 'ای پی' سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ جب کہ 2001 میں 'جٹ اینڈ بانڈ' سے ان کی اداکاری میں انٹری ہوئی ۔
فواد خان نے ایک پاکستانی اور تین بالی وڈ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
ان ہی کے ساتھی احمد علی بٹ نے بھی 'جٹ اینڈ بانڈ' کے ذریعے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ نورجہاں کے نواسےاحمد علی بٹ نے اداکاری اور گلوکاری دونوں میں نام کمایا اور حال ہی میں ایک انڈین پنجابی فلم میں بھی کام کیا ۔
البتہ ان سب سے الگ علی ظفر رہے جنہوں نے گلوکاری سے قبل ٹی وی پر اداکاری کی لیکن انہیں شہرت بطور گلوکار ہی حاصل ہوئی۔
علی ظفر نے متعدد بھارتی فلموں میں بھی کام کیا ہے جن میں 'تیرے بن لادن' اور 'میرے برادر کی دلہن' قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی پاکستانی فلم 'طیفا انِ ٹربل' کا شمار باکس آفس پر کامیاب ہونے والی ٹاپ ٹین فلموں میں ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں 'کال' بینڈ کے جنید خان، 'جل' کے فرحان سعید اور گوہر ممتاز، 'جنون' کے علی عظمت اور عاصم اظہربھی اداکاری کے میدان میں طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عمیر جسوال اور عزیر جسوال کی اداکاری کو بھی ناظرین نے سراہا لیکن ایک دو ٹی وی ڈراموں کے بعد وہ دوبارہ اسکرین پر نظر نہیں آئے۔
آج کل گلوکار عدنان سمیع خان کے صاحب زادے اذان سمیع خان ٹی وی ڈرامے 'عشقِ لا' میں بطور اداکار کام کر رہے ہیں اور ان کی پرفارمنس کو سب ہی پسند کررہے ہیں۔
اس سے قبل وہ بطور موسیقار متعدد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے ہیں جس میں 'پرواز ہے جنون' اور 'پرے ہٹ لو' شامل ہیں۔
اب اگر بھارت کی بات کی جائے تو معروف گلوکار کشور کمار نے اپنے کریئر کا آغاز اداکاری سے تو کیا تھا لیکن انہیں بطور گلوکار زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ان سے قبل معروف گلوکار طلعت محمود بھی اداکاری میں قدم جمانے کی کوشش کرچکے تھے تاہم درجن بھر فلموں کے بعد انہوں نے خود کو گلوکاری تک محدود کر دیا۔
معروف گلوکار لکی علی، سونو نگم اور موسیقار ہمیش ریشمیا نے بھی اداکاری میں آنے کی کوشش کی لیکن خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
شاید یہ بات بہت کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ بالی وڈ میں فلم 'اسٹار' کے ذریعے بطور پلے بیک گلوکارانٹری دینے والے پاکستانی گلوکار زوہیب حسن کو فلم کے پروڈیوسر بِدو نے ہیرو بننے کی آفر کی تھی لیکن انہوں نے اداکاری پر گلوکاری کو ترجیح دی۔
زوہیب حسن نے 24 برس بعد بالآخر ٹی وی پر'قسمت' نام کی سیریز میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔