مدثرہ کے حلوے اور اسد صاحب کی منگو چھیوں کا احوال پڑھا تو میرے سامنے بھی ماں باپ کے گھر میں گزارے زندگی کے بہترین دن آن کھڑے ہوئے۔ جب بھی پیچھے مڑ کر دیکھا اس گھر میں ملنے والی بھرپور محبتوں اور شفقتوں نے عملی زندگی کے سب کڑے تقاضوں سے نمٹنے کی ہمت دی۔ جب بھی کوئی مشکل آئی، لگا ماں اور باپ ہاتھ تھامے اس میں سے گزار لے گئے۔
اس گھر کے بارے میں لکھوں تو صفحات کم پڑ جائیں گے اور آج کا موضوع کہیں پیچھے رہ جائے گا۔ لیکن کیا کروں؟ آج بھی شامی کباب، مصالحے والی مچھلی، مسالہ بھری بھنڈیاں اور ٹینڈے، ہری مرچوں اور دھنیے سے سجی پودینے کی چٹنی کے ساتھ چھلکے والی ماش کی دال کے ذائقوں کا بدل ملکوں ملکوں پھرنے کے باوجود نہ تو مل سکا اور نہ ہی اس گھر اور ماحول کی جگہ لے پایا۔
دوپہر کے کھانے سے پہلے کی چائے اور شام کی چائے کے سادہ اہتمام کی یاد آج بھی آنکھ کو نم کر دیتی ہے۔ پاکستان سے ہاہر اپنے ساتھ بسنے والے احباب اور دوستوں کو کیسے بتاؤں کہ اب میں چائے کیوں نہیں پیتی۔
لاہور سے شادی ہو کے اسلام آباد میں گھر بسایا تو ایک ہی فکر تھی کہ اب کھانا کیسے بنے گا۔ کیوں کہ اپنے گھر میں تو کبھی باورچی خانے میں جھانکا بھی نہ تھا اور آپا جان کی دہلا دینے والی پیش گوئیاں بھی سامنے کھڑی تھیں کہ گھر بسانا مشکل ہو جائے گا۔
اللہ کے بعد ساری تعریفیں شبیر اور امی جی کے لیے جنہوں نے میرے کھانے پکانے کی 'مہارت' کو نہ صرف خوش دلی سے برداشت کیا بلکہ کمال محبت سے کھانا پکانے والی ترکیبوں کی کتابیں بھی ڈھونڈھ کر دیں۔
ایک وقت تھا جب دوست احباب انتہائی نرم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے کہ بہجت کے ہاں روز مختلف مینو ہوتا ہے۔ جیسے ایک دن دال چاول تو دوسرے دن چاول دال۔
ابتدائی دنوں میں اس دال چاول نے حوصلہ دیا کہ چلو کچھ نہ کچھ پک تو جاتا ہے۔ لیکن ان ابتدائی دنوں کی ایک بات بھرپور انداز میں یاد ہے کہ جو کچھ پکانے کی کوشش کی ذائقہ ایک ہی رہا۔ کیسے؟ اس ’مِتھ‘ کی سمجھ نہ آ پائی۔
انہی مہارتوں کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے ریڈیو جاپان میں فرائض کی انجام دہی کے لیے ٹوکیو کا رختِ سفر باندھا۔ دو منے لڑکے اور میاں کا ساتھ اور کسی طرح کی بیرونی مدد کے بغیر اب یہ شرعاً لازم ٹھیرا کہ کھانا پکانے کی ذمے داری سنجیدگی سے قبول کی جائے۔
اس کا احساس اس وقت اور بھی دو چند ہوا جب جاپانی دوست اکثر ہمارے گھر آنے لگے۔ مہمانوں کو کھانا کھلائے بغیر کیسے جانے دیا جائے اور پھر دستر خوان پر صرف ایک ہی ڈش تو ہو نہیں سکتی تھی۔ لہذا ہر ہفتے کی جانے ٹیلی فون گفتگو آپا جان اور آپی جی کا دسترخوان بنیں۔
آج وہی کلاسز مجھے ایسے لوگوں میں شامل کر چکی ہیں جو اپنے متعدد مہمانوں کو بہترین کھانے پیش کرنے کے قابل ہیں۔ اس گھر کا ایک خاص کھانا تھا 'زیرہ چکن' جو آج میری پہچان بن چکا ہے اور محبت کرنے والے ساتھی اور دوستوں کا گاہے گاہے یہ فقرہ ہوتا ہے کہ "بہت دن ہو گئے زیرہ چکن ہی نہیں کھایا!"
چلیے اب یہاں تک پہنچ گئے تو زیرہ چکن بنانے کی ترکیب بھی بتا دوں۔ کیا معلوم کہ کل آپ مجھ سے بہتر زیرہ چکن بنانے لگیں۔
آپ کو جو چیزیں درکار ہوں گی وہ ذرا نوٹ کر لیں۔ ایک مرغی کا گوشت (چھوٹے ٹکڑے)، زیرہ، تازہ ہری مرچیں ثابت (پسند کے مطابق)، نمک، ادرک اور لہسن کا پیسٹ، چار سے پانچ ٹماٹر، تازہ ادرک لمبی قاشوں میں کٹا ہوا، ہری کٹی مرچیں، کٹا تازہ دھنیا اور ایک چھوٹی پیالی تیل۔
تیل گرم کر لیں اور اس میں زیرہ، ادرک لہسن کا پیسٹ اور تازہ ہری مرچیں ثابت ملا دیں۔ ایک سے دو منٹ تک دھیمی آنچ پر بھون لیں۔
نمک حسب ذائقہ شامل کرنا نہ بھولیں اور جب زیرے کی خوشبو آنے لگے تو مرغی کا گوشت (چھوٹے ٹکڑے) اس میں ملا دیں۔ ذرا سا چمچ چلا کر برتن کو ڈھک دیں، لیکن آنچ دھیمی ہی رہے۔
پندرہ سے بیس منٹ کے بعد جب مرغی کا گوشت تھوڑا نرم ہونے لگے تو چار سے پانچ ٹماٹر (یہ ایک مرغی سے تیار ہونے والی ڈش کے لیے ہے) کاٹ کر شامل کر دیں۔ چمچ چلائیں اور پھر ڈھک دیں۔ آنچ بدستور ہلکی رہے گی۔
مزید پندرہ سے بیس منٹ کے بعد گوشت اور ٹماٹر گل جائیں تو آنچ ذرا تیز کیجیے۔ چمچ ہلاتے رہیے اور پانی خشک کرتے جائیں۔ اس حد تک جتنا گاڑھا مصالحہ رکھنا چاہتے ہیں یا پھر کڑاہی گوشت کی طرح بالکل خشک کر لیں۔ ساتھ ساتھ تازہ ادرک، باریک کٹی ہری مرچیں اور دھنیا شامل کر دیں۔ لذیذ زیرہ چکن تیار ہے۔
یاد رہے کہ اس میں نہ تو کوئی اور مصالحے چاہئیں اور نہ ہی اس میں پانی ڈالنا ہے کیوں کہ ہلکی آنچ پر مرغی خود ا پنے پانی میں پک جاتی ہے۔
تو اگر آپ کا یہ تجربہ لذیذ ثابت ہو تو بتائیے گا ضرور تاکہ اپنی مہارت اور اپنے پرانے گھر کی یاد میں کچھ اور چیزیں بھی آپ کو بتا سکوں۔