علامہ اقبال نے پچھلی صدی میں کہا تھا : ” آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں۔۔۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی‘‘۔
غالباً ان کا اشارہ اس صدی کی طرف بھی تھا جس سے دنیا اب گزررہی ہے۔ رواں صدی میں جو کچھ ہورہا ہے بہت تیزی سے ہورہا ہے ۔اتنی تیزی سے کہ اگلے پل کیا ہوجائے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ایک عمارت وجود میں آتی ہے ”دنیا کی بلند ترین عمارت“کہلاتی ہے مگر اگلے چند ہی سالوں میں اس سے یہ اعزاز چھن جاتا ہے۔
آج دبئی کا ”برج خلیفہ “دنیا کے سب سے اونچے ٹاور کا اعزاز رکھتا ہے مگر صرف آٹھ سال بعد ایک نہیں ایسی 20عمارتیں وجود میں آجائیں گی جو باری باری ایک دوسرے سے بلند ترین عمارت کا تاج چھینتی چلی جائیں گی۔
دبئی سے شائع ہونے والے موقر تجارتی جریدے ’عربین بزنس‘ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سن 2020ء تک دنیا میں آ سمان سے باتیں کرتیں 20 بلند ترین عمارات وجود میں آچکی ہوں گی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان 20 عمارات میں سے گیارہ عمارات صرف ایک ملک ،چین کی ملکیت ہوں گی ۔ یعنی دنیا کی تمام بلند ترین عمارات میں نصف سے بھی زائد عمارات چینی سرزمین کا حصہ ہوں گی جبکہ شمالی امریکہ اور خلیجی ممالک کے حصے میں صرف دو، دوجبکہ یورپ کے حصے میں ایک بھی عمارت نہیں آئے گی۔
یہ خواب وخیال کی باتیں نہیں۔ اس لئے دور مت جایئے کیوں کہ ایسا ہونے میں صرف8 سال کا وقت درکار ہے۔ آٹھ سال بعد چین کے تین شہر شنگھائی، شین زین اور نان جنگ بلندترین عمارات کا تاج اپنے سر سجاچکے ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں خلیج دنیا کی بیس بلند ترین عمارات میں سے صرف دوعمارات کا مسکن ہوگا۔ ایک” برج خلفیہ“ جو دبئی میں واقع ہے اور اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز رکھتا ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت جو ”برج خلفیہ “کو بھی مات دے دے گی وہ ہوگی ایک ہزار میٹر بلند ”کنگڈم ٹاور“۔ یہ عمارت سعودی عرب کے شہر جد ہ سن 2017ء میں مکمل ہوگی۔
تاہم ان دونوں عمارتوں کا اعزاز آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں تعمیر ہونے والا ”آزربائیجان ٹاور“ چھین لے گا۔ اس کی اونچائی ایک ہزار پچاس میٹر ہوگی۔
اس عرصے میں کوئی ایک بھی عمارت یورپ کی ملکیت نہیں ہوگی ۔ یہاں جو عمارات اس وقت تک بن کر مکمل ہوں گی مثلاً شارڈ لندن بریج اور ماسکو کا ”فیڈریشن ٹاور“ ۔ ان کی سطح زمین سے بلندی بالترتیب صرف تین سو چار اورتین سو ساٹھ میٹر ہوگی۔
بیس بلند ترین عمارات میں سے شمالی امریکا کے حصے میں جو دو عمارات آئیں، ان میں سے ایک ہے ”ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور“ جس کی بلندی چار سو تئیس میٹر ہے جبکہ دوسری ہے ”ولس ٹاور“ جس کی بلندی ہے چار سو بیالیس میٹر۔یہ دونوں عمارت اس وقت بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔
رواں صدی میں جو کچھ ہورہا ہے بہت تیزی سے ہورہا ہے ۔ ایک عمارت وجود میں آتی ہے اور ”دنیا کی بلند ترین عمارت“ کہلا پاتی ہے۔ مگر چند ہی سالوں میں، اس سے یہ اعزاز چھن جاتا ہے
مقبول ترین
1