واشنگٹن —
موسم ِسرما کے اولمپکس کھیلوں کا سات فروری سے روس کے بحیرہٴ اسود کےصحت افزا مقام، سوچی میں آغاز ہو رہا ہے۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے صدر، ٹھومس باخ نے سوچی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اولمپک میدان دنیا بھر سے آنے والے موسم سرما کے بہترین ایتھلیٹس کے لیے تیار ہے۔
روسی اہل کاروں نے ’وِنٹر اولمپکس‘ کی تیاری پر 50 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں، جس کے باعث یہ تاریخ کے مہنگے ترین کھیل کہلائیں گے۔ مماثلت کے لحاظ سے، لندن میں منعقد ہونے والے 2012ء کے موسمِ گرما کے اولمپکس پر 15 ارب ڈالر کی لاگت آئی تھی۔
سلامتی سے متعلق سخت اقدامات
برائی جینکنز، ’رینڈ کارپوریشن‘ میں سلامتی اور دہشت گردی سے متعلق ایک ماہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے درکار سلامتی کے بندوبست پر غیر معمولی اخراجات آئے ہیں۔
اُن کے بقول، شہر میں 70000سے 100000کے قریب پولیس والے اور فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ روسی حکام مشتبہ افراد کی تلاش میں سوچی کے ہر کوچے بازار میں موجود ہیں، وہ کچھ مخصوص افراد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ سوچی سے باہر کے علاقوں کی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں شہر میں داخل نہیں ہو سکیں گی۔ روسی حکام کو فوری رسائی فراہم کرنے کے لیے نگرانی کا ایک نظام قائم کیا گیا ہے۔
بقول اُن کے، سوچی سے باہر جانے والے اور بیرون سے شہر میں پہنچنے والے مواصلاتی پیغامات پر نظر رکھی جائے گی؛ جس میں پیغامات کی ترسیل تک رسائی اور اُنھیں بگاڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔
شمالی قفقاز سے لاحق خدشات
اصل خطرہ شمالی قفقاز سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند اور جہادی گروہوں سے ہے، خاص طور پر چیچنیا اور داغستان کے علاقوں سے، جو سوچی سے 500 کلومیٹر دور واقع ہیں۔ کئی ایک گروپوں نے موسم سرما کے اولمپکس میں خلل ڈالنے کا عہد کیا ہے۔
دسمبر کے اواخر میں، ایسے ہی ایک گروپ نے ہونے والے دو خودکش بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ولگوگراد میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو سوچی کا قریبی شہر ہے، جو 600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بروس ہافمن ’جارج ٹاؤن یونیورسٹی‘ میں دہشت گردی سے متعلق ایک ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچی کو ایک قلع بند شہر بنا دیا گیا ہے۔
کیا سوچی، واحد ہدف ہے؟
ہافمن نے کہا کہ سوچی میں کیے جانے والے سخت اقدام کے باعث اِس دہشت گردی کا نشانہ بنانا مشکل ہوگا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں کھیلوں میں خلل ڈالنے یا اولمپکس میں خرابی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔
پیوٹن کی عزت داؤ پر
متعدد ماہرین، جن میں ’رینڈ کارپوریشن‘ کے برائن جینکنز شامل ہیں، کہتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اِن کھیلوں پر بے تحاشہ خرچہ کیا ہے۔
ٹھومس ڈی وال شمالی قفقاز کے بارے میں تفصیل سے لکھتے رہے ہیں۔ اُن کا اس بات سے اتفاق ہے کہ صدر پیوٹن نے کھیلوں کے پُرامن انعقاد کو اپنی ذاتی عزت کا معاملہ بنایا ہے۔
وال کہتے ہیں کہ اگر سوچی کھیل اچھے انداز سے منعقد ہوجاتے ہیں، اور کوئی واقع نہیں ہوتا، تو سب سے زیادہ خوشی ولادیمیر پیوٹن کو ہوگی۔ لیکن، ساتھ ہی، اگر کوئی خرابی واقع ہوتی ہے، تو اُنہی پر انگلیاں اُٹھیں گی۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے صدر، ٹھومس باخ نے سوچی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اولمپک میدان دنیا بھر سے آنے والے موسم سرما کے بہترین ایتھلیٹس کے لیے تیار ہے۔
روسی اہل کاروں نے ’وِنٹر اولمپکس‘ کی تیاری پر 50 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں، جس کے باعث یہ تاریخ کے مہنگے ترین کھیل کہلائیں گے۔ مماثلت کے لحاظ سے، لندن میں منعقد ہونے والے 2012ء کے موسمِ گرما کے اولمپکس پر 15 ارب ڈالر کی لاگت آئی تھی۔
سلامتی سے متعلق سخت اقدامات
برائی جینکنز، ’رینڈ کارپوریشن‘ میں سلامتی اور دہشت گردی سے متعلق ایک ماہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے درکار سلامتی کے بندوبست پر غیر معمولی اخراجات آئے ہیں۔
اُن کے بقول، شہر میں 70000سے 100000کے قریب پولیس والے اور فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ روسی حکام مشتبہ افراد کی تلاش میں سوچی کے ہر کوچے بازار میں موجود ہیں، وہ کچھ مخصوص افراد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ سوچی سے باہر کے علاقوں کی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں شہر میں داخل نہیں ہو سکیں گی۔ روسی حکام کو فوری رسائی فراہم کرنے کے لیے نگرانی کا ایک نظام قائم کیا گیا ہے۔
بقول اُن کے، سوچی سے باہر جانے والے اور بیرون سے شہر میں پہنچنے والے مواصلاتی پیغامات پر نظر رکھی جائے گی؛ جس میں پیغامات کی ترسیل تک رسائی اور اُنھیں بگاڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔
شمالی قفقاز سے لاحق خدشات
اصل خطرہ شمالی قفقاز سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند اور جہادی گروہوں سے ہے، خاص طور پر چیچنیا اور داغستان کے علاقوں سے، جو سوچی سے 500 کلومیٹر دور واقع ہیں۔ کئی ایک گروپوں نے موسم سرما کے اولمپکس میں خلل ڈالنے کا عہد کیا ہے۔
دسمبر کے اواخر میں، ایسے ہی ایک گروپ نے ہونے والے دو خودکش بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ولگوگراد میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو سوچی کا قریبی شہر ہے، جو 600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بروس ہافمن ’جارج ٹاؤن یونیورسٹی‘ میں دہشت گردی سے متعلق ایک ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچی کو ایک قلع بند شہر بنا دیا گیا ہے۔
کیا سوچی، واحد ہدف ہے؟
ہافمن نے کہا کہ سوچی میں کیے جانے والے سخت اقدام کے باعث اِس دہشت گردی کا نشانہ بنانا مشکل ہوگا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں کھیلوں میں خلل ڈالنے یا اولمپکس میں خرابی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔
پیوٹن کی عزت داؤ پر
متعدد ماہرین، جن میں ’رینڈ کارپوریشن‘ کے برائن جینکنز شامل ہیں، کہتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اِن کھیلوں پر بے تحاشہ خرچہ کیا ہے۔
ٹھومس ڈی وال شمالی قفقاز کے بارے میں تفصیل سے لکھتے رہے ہیں۔ اُن کا اس بات سے اتفاق ہے کہ صدر پیوٹن نے کھیلوں کے پُرامن انعقاد کو اپنی ذاتی عزت کا معاملہ بنایا ہے۔
وال کہتے ہیں کہ اگر سوچی کھیل اچھے انداز سے منعقد ہوجاتے ہیں، اور کوئی واقع نہیں ہوتا، تو سب سے زیادہ خوشی ولادیمیر پیوٹن کو ہوگی۔ لیکن، ساتھ ہی، اگر کوئی خرابی واقع ہوتی ہے، تو اُنہی پر انگلیاں اُٹھیں گی۔