سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس کا استعمال اب صرف عوام تک محدود نہیں رہا ، بلکہ اب سیاستدان بھی اپنا سیاسی پیغام عام کرنے کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کررہے ہیں۔
لیکن جدید میڈیا صرف ایک ملک کی قیادت کے خلاف آواز اٹھانے میں ہی مددگار ثابت نہیں ہو رہا۔ آج سیاست دان انہیں اپنا موقف اخبار اور ٹی وی کے رپورٹر کے بجائے خود عوام تک پہنچانے کے لیئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ہے صدر باراک اوباما کی جانب سے امریکی معیشت کی صورت حال پر ٹویٹر کے زریعے عوام کے ساتھ ٹاؤن ہال طرز کی ایک میٹنگ۔
اس سے پہلے صدر اواباما فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے بھی امریکی عوام سے رابطہ کر چکے ہیں۔ لیکن دیگر میڈیا کی نسبت ٹویٹر پر پیغام میں صرف ایک سو چالیس حروف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔۔اور اتنے کم الفاظ میں اپنی بات کہنا آسان نہیں۔اسی لیے صدر اوباما نے ٹویٹر کے ساتھ گفتگو کا سہارا بھی لیا۔
سیاسی تجزیہ کار کین گولڈسٹین کہتے ہیں کہ جدید میڈیا میں حروف کی قید صدر اوباما جیسے سیاست دانوں کے لیے کچھ مشکلات بھی کھڑی کرتی ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ خبروں میں دلچسپی لینے والوں کو نہ صرف جدید بلکہ روایتی میڈیا پر بھی توجہ دینی چاہیئے۔ کین کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ روایتی میڈیا اب بھی اہم ہے۔ انٹرنیٹ پر ملنے والی زیادہ تر معلومات کی بنیاد روایتی میڈیا ہی ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور کاروبار بھی معلومات کے تبادلے اور عوام تک پہنچنے کے لیے آج بڑی تعداد میں فیس بک اور ٹویٹر جیسے جدید میڈیا کا ہی سہارا لے رہے ہیں۔