رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسیٰ کی آئینی کنونشن میں شرکت؛ کیا جج کو سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے؟


پاکستان کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کے کنونشن میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کی شرکت پر سوشل میڈیا میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

پیر کو قومی اسمبلی کے ہال میں ہونے والی تقریب میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اولین نشستوں پر موجودگی کی تصاویر سوشل میڈیا پر تبصروں کے ساتھ شیئر کی جارہی ہیں جہاں وہ سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

ایوان میں ہونے والی تقریب میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری نے اپنی تقاریر میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اور عدلیہ کے طرز عمل پر بھی اظہارِ خیال کیا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ دینے والے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

تقریب میں جب جسٹس فائز عیسیٰ کو خطاب کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو مخاطب کر کے کہا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو نہیں ہوگی۔ لیکن ان کے بقول وہ آزادیٔ اظہار کے حق کا احترام کرتے ہیں جو اس آئین ہی نے سب کو دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایوان میں ہونے والی سیاسی تقاریر سے اتفاق نہیں کرتے اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کل کو یہاں موجود افراد کے کیسز اگر ان کے سامنے آئے تو فیصلے ان کے خلاف بھی آسکتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس پر یہ شکایت نہ کی جائے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔جسٹس فائز عیسیٰ کے اس ریمارکس پر ایوان میں قہقہے بلندہوئے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خطاب کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بھی واضح کیا کہ ایوان میں آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں کنونشن ہورہا ہے اور یہ ایوان کی معمول کی کارروائی نہیں ہے۔ اس کنونشن میں آئین بنانے والے رہنماؤں، سیاسی و قانونی زعما، اساتذہ اور طلبہ وغیرہ کو بھی مدعو کیا گیا ہے لہذا اسے میڈیا اور سوشل میڈیا اسی تناظر میں دیکھے۔

لیکن ایسے حالات میں جب حکومت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سےمستعفی ہونے کا مطالبہ کرچکی ہے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے سو موٹو اختیار سے متعلق فیصلے کے بعد ان کے چیف جسٹس سے اختلافات کا تاثر پایا جاتا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کی اس اجلاس میں شرکت کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہاہے۔

البتہ بعض حلقے چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج کی آئین کی سال گرہ کے موقع پر پارلیمنٹ میں موجودگی کو پارلیمنٹ کی بالادستی کے پیغام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

’یہ تصویر اچھی نہیں‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے نائب صدر فواد چوہدری نے جسٹس فائز عیسیٰ کی ایوان میں موجودگی سے متعلق ایک ٹوئٹ پر تبصرے میں کہا کہ بطور پارٹی وہ ججوں کے کنڈکٹ پر تنقید میں نہیں پڑتے لیکن یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔

فواد چوہدری نے صحافی امیر عباس کی اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ آصف زرداری نے جسٹس فائز عیسیٰ کو اپنے ساتھ بٹھا کر عدلیہ اور ججوں پر تنقید کی اور اپنے منی لانڈرنگ کیس کے حق میں دلائل دیے۔ کیا کسی جج کو ایسے سیاسی فورمز پر بیٹھنا چاہیے تھا؟

وکیل اور کرنٹ افیئرز شو کے میزبان عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ میں دراڑیں پڑی ہیں، یہ منظر بد ترین ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ وہ (جسٹس فائز عیسیٰ) کس طرح اس سیاسی پوسچرنگ کا حصہ بن سکتے ہیں؟ جب ایسا ظاہر بھی نہیں ہورہا ہے کہ یہ لوگ اسے ایک رسمی تقریب ظاہر کررہے ہوں۔ ان لوگوں نے انہیں بہلا کر بلا لیا ہے۔

اینکر مہر بخاری نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ آمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا ساری ذہانت، تدبیر ختم ہو گئی ہے؟

انہوں نے لکھا کہ جب جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے 50 سال پورے ہونے پر منعقد کی گئی خصوصی دعوت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ کیا سوچ رہے تھے؟

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لیے ایک نازک اور متنازع وقت میں اس سے بدتر آپٹکس کیا ہو سکتی ہے؟

آئین سے وفاداری کی جھلک

دوسری جانب کئی سوشل میڈیا صارفین نے جسٹس فائز عیسیٰ کی دستورِ پاکستان سے متعلق تقریب میں شرکت کی تعریف بھی کی ہے۔

عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات میں سپریم کورٹ کے معزز جج،مستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان کی شمولیت سے ان کی آئین پاکستان سے وفاداری اور محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تقریب میں سپریم کورٹ کے تمام معزز ججوں کو شریک ہونا چاہیے تھا جنھوں نے آئین پر حلف اٹھایا ہے۔

صحافی نصرت جاوید نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ وہ کسی سلیبریٹی کے ایونٹ میں شریک نہیں ہیں۔ بطور سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج وہ پہلی قطار میں بیٹھنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جسٹس فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریب میں شرکت پر ایک ٹرینڈ بھی چل رہا ہے جس میں ان کے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

وہیں بعض صارفین سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیرِ صدارت تقریب میں اس وقت کے وزیرِ اعظم کی شرکت کی ویڈیوز بھی شیئر کررہے ہیں۔ اس تقریب میں عمران خان نے چیف جسٹس کے فیصلوں کو سراہا تھا۔

قانون دان صلاح الدین احمد نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو موجودہ سیاسی انتشار کے ماحول میں اسمبلی میں ہونے والی تقریب میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تاثر کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر وہ چلے بھی گئے تھے تو انہیں الگ بیٹھنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جو لوگ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس عمل کو ججز کے کنڈکٹ کی خلاف ورزی یا غیر معمولی قرار دے رہے ہیں وہ بے خبر ہیں۔

انہوں نے ایک تصویر شیئر کرکے بتایا کہ 2014 میں اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی سینیٹ سے خطاب کیا تھا۔

خیال رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ وہ صرف اس لیے تقریب میں شریک ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس آئین کی پاس داری کا حلف اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ایوان میں ہونے والے سیاسی تقاریر سے دو بار لاتعلقی کا اظہار بھی کیا تھا۔

تقریر کے دوران انہوں نے ایک موقعے پر واضح کیا کہ وہ اپنے ادارے عدلیہ کی نمائندگی کرنے آئے ہیں۔ ممکنہ طور پر دیگر ججز اپنی مصروفیات کی وجہ سے تقریب میں شامل نہیں ہوسکے۔

XS
SM
MD
LG