سوٹزرلینڈ کا شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ بحرالکاہل کے ریکارڈ توڑ سفر کے بعد جمعے کو کامیابی سے جزیرہٴہوائی میں اتر گیا۔ شمسی طیارے میں رواجی توانائی کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں تھا، اور اس نے دنیا بھر کا 35000 کلومیٹر کا خطرناک ترین سفر مکمل کیا۔
’سولر امپلس 2‘ طیارے کے پائلٹ آندرے بورشبرگ نے 120 گھنٹے تک پرواز کی، اور یوں طویل ترین سفر کا پرانا ریکارڈ بھی توڑا جو شوقیہ امریکی پائلٹ اسٹیو فوزے نے قائم کیا تھا، جنھوں نے خصوصی ڈزائن والے جیٹ طیارے میں 76 گھنٹوں تک دنیا بھر کا چکر لگایا تھا۔
سارے سفر کے دوران، بورشبرگ صرف 20 منٹ کے لیے سویا کرتے تھے۔ اُن کے کاک پٹ میں عام پریشر کا نظام نہیں چلتا تھا، جب طیارہ آٹو پائلٹ پر ہوا کرتا تھا۔
برٹ رینڈ پیکارڈ، طیارے کے ’کو پائلٹ‘ تھے۔ ایک بیان میں اُنھوں نے کہا کہ ’کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ شمسی توانائی پر چلنے والا یہ جہاز عام ’فیئول ‘کے بغیر ایک جیٹ طیارہ سے بھی زیادہ دیر تک پرواز کر سکتا ہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک واضح پیغام ہے کہ صاف ٹکنالوجی غیرمعمولی اہداف حاصل کر سکتی ہے‘۔
’ایس آئی 2‘ طیارے نے، ایک ماہ تک کےبغیر پروگرام کے قیام کے بعد، پیر کی علی الصبح جاپان کے شہرنگویا سے پرواز بھری۔
جون کے آغاز پر، مشرقی چین کے شہر ننجنگ سے ہوائی جاتے ہوئے، خراب موسم کے باعث، طیارے کا رُخ نگویا کی جانب موڑا گیا تھا۔
طیارے کے دوسرے سفر میں، سوٹزرلینڈ کے شوقیہ پائلٹ، برٹ رینڈ پیکارڈ اِسی طیارے کو ہوائی سے ایریزونا کے شہر فوئنکس لائیں گے۔ جہاں سے، ’سولر امپلس2 ‘ نیویارک روانہ ہوگا، جس کے بعد وہ بحر اوقیانوس پار کرتے ہوئے اپنی آخری منزل، متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت، ابو ظہبی پہنچیں گے۔
’سولر امپلس 2‘ سوٹزرلینڈ کے دو سائنس دانوں، بورشبرگ اور پیکارڈ کی تخلیق ہے، جنھوں نے اس منصوبے کو 2002ء میں تیار کیا۔